Ah Maray Usama Archives - Manshurat Manshurat Thu, 25 Sep 2025 09:37:44 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.9 https://manshurat.pk/wp-content/uploads/2024/01/cropped-Man_Logo_New-1-32x32.jpg Ah Maray Usama Archives - Manshurat 32 32 228176289 Ah Maray Usama https://manshurat.pk/product/ah-maray-usama/ https://manshurat.pk/product/ah-maray-usama/#respond Fri, 11 Feb 2022 02:05:05 +0000 https://demo2wpopal.b-cdn.net/bookory/product/intelligent-silk-lamp/ زندگی کا انجام زندگی ہی ہے، مگر اس تک پہنچنے کا راستہ موت کی گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ کتاب "اے میرے اسامہ "اسی پرکیف، پرسوز اور دلگداز سفر کی تحریری داستان ہے—ایسا سفر جس میں چار مسافر شامل تھے: ایک ماں، اس کا بیٹا، بہو اور ننھی پوتی۔ تین مسافر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، اور اب ماں تنہا رہ گئی ہے—مگر خاموش نہیں۔ اُس نے ان جانے والوں سے گفتگو کا وسیلہ تین خطوط کو بنایا: ایک طویل، دو مختصر۔ لیکن ان مختصر خطوط میں بھی جذبات کی گہرائی اور زندگی کی صداقتوں کا وہ وزن ہے جو کسی طویل داستان پر بھاری پڑتا ہے۔

یہ خطوط کسی روایتی بیانیے کا حصہ نہیں—نہ افسانہ ہیں، نہ ناول، نہ مضمون کی ثقیل نثر اور نہ نوحہ گری کی آہ و فغاں۔ بلکہ یہ ایک ایسی منفرد تحریر ہے جو خونِ جگر سے لکھی گئی، دل سے نکلی، اور دلوں میں اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بظاہر یہ خودکلامی محسوس ہوتی ہے، لیکن صفحہ بہ صفحہ یہ تحریر خود احتسابی، روحانی بیداری، اور تربیتی شعور کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ کتاب صرف دکھ کی کہانی نہیں، بلکہ دکھ کے اندر چھپے شعور، صبر اور حکمت کی ہے۔

The post Ah Maray Usama appeared first on Manshurat.

]]>
کتاب “اے میرے اسامہ” بظاہر ایک ماں کے جذباتی خطوط کا مجموعہ ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک مادرِ شہید کا فکری و روحانی مرثیہ ہے، جس میں محبت، جدائی، قربانی، قوم پرستی اور ایمان کی گہرائیاں سمو دی گئی ہیں۔

یہ کتاب اسامہ احمد شہید (ڈپٹی کمشنر چترال) کی والدہ جبین چیمہ نے اس وقت لکھی جب ان کا جوان بیٹا قوم و ملک کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ دے چکا تھا۔ وہ ماں جو حادثے کے بعد چند سطور پڑھنے کا حوصلہ نہ رکھتی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ اتنا حوصلہ جمع کر لیتی ہے کہ 140 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب تحریر کرتی ہے جو نہ صرف اردو ادب میں تعزیتی ادب کا نادر نمونہ ہے، بلکہ قومی سطح پر ایک یادگار خراجِ عقیدت بھی ہے۔

کتاب کا اسلوب سادہ، جذباتی اور بے حد موثر ہے۔ ایک طویل خط اور دو مختصر خطوط کے ذریعے مصنفہ نے نہ صرف بیٹے سے گفتگو کی بلکہ خود کو اس کربناک تنہائی سے بھی ہم کلام رکھا جو ایک ماں اپنے بچے کے بغیر محسوس کرتی ہے۔ ہر سطر میں ممتا کا درد بھی ہے اور ربِ کائنات پر غیر متزلزل ایمان بھی۔

کتاب میں بیٹے کے کارنامے بھی نمایاں کیے گئے ہیں—چاہے وہ چترال کی ترقی کے لیے اس کی بے مثال خدمات ہوں یا عوامی سطح پر اس کی مقبولیت۔ اسے تیس سال کی عمر میں ڈپٹی کمشنر لگایا گیا، اور اس نے ہر تقرری کو خدمت کا موقع جانا۔

کتاب محض ذاتی جذبات کا اظہار نہیں بلکہ قومی سطح پر شہیدوں کی قربانیوں کا اعتراف بھی ہے۔ ہر وہ افسر جو ملک و قوم کے لیے جان دیتا ہے، اس کی یاد، اس کی خدمت اور اس کے جذبے کو یہ کتاب ایک وسیع تناظر میں پیش کرتی ہے۔

پروفیسر سلیم منصور نے بجا کہا کہ یہ کتاب محض چند خطوط نہیں، بلکہ ماں، بیٹا، بہو اور پوتی کے سفر کی وہ روداد ہے جو وقت کی دھول میں بھی کبھی مدھم نہیں ہو سکتی۔

The post Ah Maray Usama appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/product/ah-maray-usama/feed/ 0 69