Description
کتاب “اے میرے اسامہ” بظاہر ایک ماں کے جذباتی خطوط کا مجموعہ ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک مادرِ شہید کا فکری و روحانی مرثیہ ہے، جس میں محبت، جدائی، قربانی، قوم پرستی اور ایمان کی گہرائیاں سمو دی گئی ہیں۔
یہ کتاب اسامہ احمد شہید (ڈپٹی کمشنر چترال) کی والدہ جبین چیمہ نے اس وقت لکھی جب ان کا جوان بیٹا قوم و ملک کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ دے چکا تھا۔ وہ ماں جو حادثے کے بعد چند سطور پڑھنے کا حوصلہ نہ رکھتی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ اتنا حوصلہ جمع کر لیتی ہے کہ 140 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب تحریر کرتی ہے جو نہ صرف اردو ادب میں تعزیتی ادب کا نادر نمونہ ہے، بلکہ قومی سطح پر ایک یادگار خراجِ عقیدت بھی ہے۔
کتاب کا اسلوب سادہ، جذباتی اور بے حد موثر ہے۔ ایک طویل خط اور دو مختصر خطوط کے ذریعے مصنفہ نے نہ صرف بیٹے سے گفتگو کی بلکہ خود کو اس کربناک تنہائی سے بھی ہم کلام رکھا جو ایک ماں اپنے بچے کے بغیر محسوس کرتی ہے۔ ہر سطر میں ممتا کا درد بھی ہے اور ربِ کائنات پر غیر متزلزل ایمان بھی۔
کتاب میں بیٹے کے کارنامے بھی نمایاں کیے گئے ہیں—چاہے وہ چترال کی ترقی کے لیے اس کی بے مثال خدمات ہوں یا عوامی سطح پر اس کی مقبولیت۔ اسے تیس سال کی عمر میں ڈپٹی کمشنر لگایا گیا، اور اس نے ہر تقرری کو خدمت کا موقع جانا۔
کتاب محض ذاتی جذبات کا اظہار نہیں بلکہ قومی سطح پر شہیدوں کی قربانیوں کا اعتراف بھی ہے۔ ہر وہ افسر جو ملک و قوم کے لیے جان دیتا ہے، اس کی یاد، اس کی خدمت اور اس کے جذبے کو یہ کتاب ایک وسیع تناظر میں پیش کرتی ہے۔
پروفیسر سلیم منصور نے بجا کہا کہ یہ کتاب محض چند خطوط نہیں، بلکہ ماں، بیٹا، بہو اور پوتی کے سفر کی وہ روداد ہے جو وقت کی دھول میں بھی کبھی مدھم نہیں ہو سکتی۔




Reviews
There are no reviews yet.