آن لائن اسلامی کتاب گھر Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/آن-لائن-اسلامی-کتاب-گھر/ Manshurat Fri, 20 Dec 2024 11:55:21 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.8.3 https://manshurat.pk/wp-content/uploads/2024/01/cropped-Man_Logo_New-1-32x32.jpg آن لائن اسلامی کتاب گھر Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/آن-لائن-اسلامی-کتاب-گھر/ 32 32 228176289 خاموشی پیچھے شور-عبداللّٰہ شاہ ہاشمی https://manshurat.pk/2024/12/06/%d8%ae%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b4%db%8c-%d9%be%db%8c%da%86%da%be%db%92-%d8%b4%d9%88%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%84%d9%91%d9%b0%db%81-%d8%b4%d8%a7%db%81-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c/ https://manshurat.pk/2024/12/06/%d8%ae%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b4%db%8c-%d9%be%db%8c%da%86%da%be%db%92-%d8%b4%d9%88%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%84%d9%91%d9%b0%db%81-%d8%b4%d8%a7%db%81-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c/#respond Fri, 06 Dec 2024 09:06:10 +0000 https://manshurat.pk/?p=11014 بچوں کے ذوقِ مطالعہ اور ان کے ادب پر ابتدائی دور میں زیادہ کام نہیں ہوا۔ البتہ گذشتہ ربع صدی میں بچوں کے ادب پر نسبتاً توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں کہانیوں کی سیکڑوں کتب اور بیسیوں رسالے منظرعام پر آئے ہیں۔ خصوصاً بچے کی زندگی میں کہانی کی اہمیت کا احساس اُجاگر […]

The post خاموشی پیچھے شور-عبداللّٰہ شاہ ہاشمی appeared first on Manshurat.

]]>
بچوں کے ذوقِ مطالعہ اور ان کے ادب پر ابتدائی دور میں زیادہ کام نہیں ہوا۔ البتہ گذشتہ ربع صدی میں بچوں کے ادب پر نسبتاً توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں کہانیوں کی سیکڑوں کتب اور بیسیوں رسالے منظرعام پر آئے ہیں۔ خصوصاً بچے کی زندگی میں کہانی کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہوا ہے اور بچوں کے رسائل میں تنوع اور معیار میں بہتری آئی ہے۔ کہانیوں پر مشتمل زیرنظرکتاب بچوں کے ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر ان کہانیوں کی مخاطب نئی نسل ہے۔

بچوں کے لیے ادب کی تخلیق اس سے کہیں مشکل ہے جو بڑوں کے لیے لکھا جاتا ہے۔ بچوں کے دلوں کو مسحور کرنا اور ان کے لیے فن سے مسرت کشید کرنا ریاضت طلب ہوتا ہے۔ اخترعباس گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے بڑی ریاضت سے کام لیا ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات کا اِدراک رکھتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی فکروشعور کی قوتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے. کہانیوں میں دیمک، اندر کی چٹخنی، چیک بُک اور دربان جیسی کہانیاں ذہنی بالیدگی کا سبب بھی ہیں اور نئی نسل کے احساسات کی تسکین کا ذریعہ بھی
۔ ان سے جہاں دل چسپ پیرایے میں معاشرتی اقدار اور انسانی رویوں سے آگاہی ہوتی ہے وہاں ایسے کرداروں کا تعارف بھی ہوتا ہے جو اعلیٰ قدروں کے علَم بردار بھی ہیں اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کے حامل بھی۔ ان کہانیوں کا اسلوب نوجوانوں کے علاوہ بڑوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور فکری رہنمائی اور تعمیر سیرت و کردار کا ذریعہ بنتا ہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post خاموشی پیچھے شور-عبداللّٰہ شاہ ہاشمی appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/06/%d8%ae%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b4%db%8c-%d9%be%db%8c%da%86%da%be%db%92-%d8%b4%d9%88%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%84%d9%91%d9%b0%db%81-%d8%b4%d8%a7%db%81-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c/feed/ 0 11014
کلامِ اقبال معاون کتاب برائے اساتذہ-عبداللّٰہ شاہ ہاشمی https://manshurat.pk/2024/12/04/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85%d9%90-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d9%88%d9%86-%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a8%d8%b1%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%a7%d8%b3%d8%a7%d8%aa%d8%b0%db%81-%d8%b9%d8%a8/ https://manshurat.pk/2024/12/04/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85%d9%90-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d9%88%d9%86-%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a8%d8%b1%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%a7%d8%b3%d8%a7%d8%aa%d8%b0%db%81-%d8%b9%d8%a8/#respond Wed, 04 Dec 2024 06:45:54 +0000 https://manshurat.pk/?p=11009 اسلامی نظامت تعلیم، پاکستان میں نظامِ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی داعی ہے اور زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ سطح تک کے طلبہ کے لیے کلامِ اقبال سے ایک انتخاب ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ ۱۲ سال کی عمر تک […]

The post کلامِ اقبال معاون کتاب برائے اساتذہ-عبداللّٰہ شاہ ہاشمی appeared first on Manshurat.

]]>
اسلامی نظامت تعلیم، پاکستان میں نظامِ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی داعی ہے اور زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ سطح تک کے طلبہ کے لیے کلامِ اقبال سے ایک انتخاب ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ ۱۲ سال کی عمر تک کے طلبہ، دوسرا حصہ ایلیمنٹری جماعتوں کے طلبہ اور تیسرا حصہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کے طلبہ کے لیے ہے۔ مرتبین نے کلامِ اقبال کے انتخاب میں طلبہ کی ذہنی سطح کا خیال رکھا ہے۔ ہر نظم کے متن کے ساتھ اس کا مختصر تعارف اور مشکل الفاظ کے معانی بھی دیے گئے ہیں جس سے کلامِ اقبال کی تفہیم کسی قدر آسان ہوگئی ہے۔ کلامِ اقبال اساتذہ کے لیے ایک معاون کتاب ہے۔ ابھی مزید مشکل الفاظ و معانی شامل کرنے اور شعروں کی تشریح کرکے، تفہیم کو سہل بنانا ضروری ہے۔

ابتدائی جماعتوں اور انٹر کے طلبہ کی ذہنی سطح میں خاصا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب ہوتا کہ یہ انتخاب الگ الگ شائع کیا جاتا۔ الفاظ و معانی کے ساتھ تراکیب کی توضیحات اور بعض تلمیحات کا پس منظر بھی واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مضامین کے اختتام پر حیاتِ اقبال کے اہم اور دل چسپ واقعات کے اقتباسات دینے کی گنجایش تھی جس سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post کلامِ اقبال معاون کتاب برائے اساتذہ-عبداللّٰہ شاہ ہاشمی appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/04/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85%d9%90-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d9%88%d9%86-%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a8%d8%b1%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%a7%d8%b3%d8%a7%d8%aa%d8%b0%db%81-%d8%b9%d8%a8/feed/ 0 11009
اقبال، روح دین کا شناسا-قاسم محمود احمد https://manshurat.pk/2024/12/04/%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84%d8%8c-%d8%b1%d9%88%d8%ad-%d8%af%db%8c%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d8%b4%d9%86%d8%a7%d8%b3%d8%a7-%d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af/ https://manshurat.pk/2024/12/04/%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84%d8%8c-%d8%b1%d9%88%d8%ad-%d8%af%db%8c%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d8%b4%d9%86%d8%a7%d8%b3%d8%a7-%d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af/#respond Wed, 04 Dec 2024 06:22:53 +0000 https://manshurat.pk/?p=11006 سیدعلی گیلانی خطۂ کشمیر میں تحریکِ اسلامی کے سرخیل اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے روحِ رواں ہیں۔ وہ تقریباً ۲۵ سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے ہیں۔ بڑھاپے کے ساتھ عارضۂ قلب اور سرطان جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن اس عالم میں بھی ان کے حوصلے اور جذبے تندرست و توانا […]

The post اقبال، روح دین کا شناسا-قاسم محمود احمد appeared first on Manshurat.

]]>
سیدعلی گیلانی خطۂ کشمیر میں تحریکِ اسلامی کے سرخیل اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے روحِ رواں ہیں۔ وہ تقریباً ۲۵ سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے ہیں۔ بڑھاپے کے ساتھ عارضۂ قلب اور سرطان جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن اس عالم میں بھی ان کے حوصلے اور جذبے تندرست و توانا اور مستحکم ہیں جس کی ایک دلیل زیرنظر کتاب ہے۔

علامہ اقبال کو عام طور پر اُردو شاعری کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن اقبال کی فارسی شاعری بھی اپنے اندر ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو رکھتی ہے۔ علی گیلانی نے اقبال کے فارسی کلام سے ان کی شخصیت کے اس منفرد پہلو کو اُجاگر کرکے فی الواقع ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ یہاں ہمیں اقبال ایک فلسفی اور شاعر سے بڑھ کر احیاے اُمت کے داعی اور نبی کریمؐ کے مشن کے علَم بردار نظر آتے ہیں۔ وہ مسلمان سے کہتے ہیں کہ اے لاالٰہ کے وارث! تو اپنی حقیقت کو پہچان اور دینِ حق کو لے کر اُٹھ، یہی تمھارے تمام مسائل کا حل اور علاج ہے۔

علامہ اقبال کے افکارِ عالیہ کا سرچشمہ قرآن و حدیث ہے۔ زیرنظر کتاب میں ۱۶موضوعات کے تحت افکار اقبال کی توضیحات شامل ہیں۔ سید علی گیلانی نے زمانۂ طالب علمی کا کچھ عرصہ لاہور میں گزارا اور یہیں ’پرندے کی فریاد‘ اقبال سے ان کے اوّلین تعارف کا سبب بنی۔ وہ لاہور کا ذکر انتہائی محبت سے کرتے ہیں۔ انھوں نے فکرِاقبال کے ترکیبی عناصر اور اس کے بتدریج ارتقا پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور یہ گفتگو زیادہ تر ان کے شعری شاہ کار جاوید نامہ کے حوالے سے کی گئی ہے۔

جاوید نامہ دراصل ایک تمثیل ہے۔ اس میں اقبال اور رومی مختلف افلاک کا سفر کرتے ہوئے عالمِ بالا میں مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ’قلزمِ خونیں سے ایک غدار کی فریاد‘ کے زیرعنوان گیلانی صاحب نے موجودہ تناظر میں ملک و ملّت کے غداروں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرقی اقوام بالخصوص اہلِ ہندستان بظاہر آزاد ہوچکے ہیں مگر مسلم مشرق اب بھی استعماری قوتوں کے پنجۂ استبداد میں ہے۔ اس دگرگوں صورتِ حال سے چھٹکارے کے لیے ہم افکارِ اقبال کی روشنی میں اپنا لائحۂ عمل مرتب کرسکتے ہیں۔

سید علی گیلانی کا خیال ہے کہ تحریکِ آزادی اور تبلیغ دین کے کام میں ہمیں کلامِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اقبال روحِ دین کے شناسا ہیں۔ گیلانی صاحب کہیں کہیں اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور شعرِاقبال سے تائید حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے اسبابِ زوالِ اُمت کی نشان دہی کرتے ہوئے فکرِاقبال کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں فکرِاقبال ہی دردِ ملّت کا درماں ہے۔

یہ کتاب علم و حکمت کا خزینہ ہے اور اپنے اندر عام قارئین کے لیے بھی دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ علی گیلانی کی تحریر خوب      صورت اسلوبِ نگارش کا مرقع ہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post اقبال، روح دین کا شناسا-قاسم محمود احمد appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/04/%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84%d8%8c-%d8%b1%d9%88%d8%ad-%d8%af%db%8c%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d8%b4%d9%86%d8%a7%d8%b3%d8%a7-%d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af/feed/ 0 11006
علامہ اقبال اور میرحجاز-محمد ایوب منیر https://manshurat.pk/2024/11/29/%d8%b9%d9%84%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%db%8c%d8%b1%d8%ad%d8%ac%d8%a7%d8%b2-%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%db%8c%d9%88%d8%a8-%d9%85%d9%86%db%8c%d8%b1/ https://manshurat.pk/2024/11/29/%d8%b9%d9%84%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%db%8c%d8%b1%d8%ad%d8%ac%d8%a7%d8%b2-%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%db%8c%d9%88%d8%a8-%d9%85%d9%86%db%8c%d8%b1/#respond Fri, 29 Nov 2024 10:03:17 +0000 https://manshurat.pk/?p=10995 علامہ اقبال اور میرحجازؐ ، ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی محسن انسانیتؐ کی شخصیت کا سورج، اختتام کائنات تک انسانوں کی راہ نمائی کرتارہے گا۔انسانوں کے بحر برعظیم ہند میں علامہ محمد اقبال وہ نابغۂ روزگار ہیں جو غلام ہندستان میں پیدا توضرور ہوئے مگراپنے افکار کے ذریعے انھوں نے غلامی(سیاسی اورذہنی، یعنی ہر قسم کی غلامی) […]

The post علامہ اقبال اور میرحجاز-محمد ایوب منیر appeared first on Manshurat.

]]>
علامہ اقبال اور میرحجازؐ ، ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی

محسن انسانیتؐ کی شخصیت کا سورج، اختتام کائنات تک انسانوں کی راہ نمائی کرتارہے گا۔انسانوں کے بحر برعظیم ہند میں علامہ محمد اقبال وہ نابغۂ روزگار ہیں جو غلام ہندستان میں پیدا توضرور ہوئے مگراپنے افکار کے ذریعے انھوں نے غلامی(سیاسی اورذہنی، یعنی ہر قسم کی غلامی) سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔تخلیق ارض وسماسے لے کران کے اپنے دور تک،اگر انھوں نے کسی ہستی کی عظمت و بالادستی کوبسروچشم قبول کیاتووہ محمد کریمؐ کی ذات ستودہ صفات ہے ؎

ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست

فکرِ ما پروردۂ احسانِ تست

(یہ سب آپؐ کے لطفِ بے پایاں کے طفیل ہے، ہماری فکر نے آپؐ کے احسان سے پرورش پائی ہے۔)

اقبال نے (موجودہ دور میں اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر ہونے کے ناتے) قوت ِعشق سے ہر پست کو بالا کرنے اور دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اقبال کی عقیدت اورقلبی وابستگی کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نظر کتاب ایک پُراثر تحریر ہے۔ ۷۰صفحات میں ۲۰ عنوانات کے تحت،متعدد واقعات اوردرجنوں اشعار کوتاریخی حوالوں سے اس طرح سمیٹ دیاگیاہے کہ قاری کے دل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کتاب میں علامہ اقبال کی زندگی، رسول اکرمؐ سے ان کی محبت، سفرِحجاز کے عزم،حج بیت اللہ کی خواہش، روضۂ رسولؐ کی زیارت کے واقعات کو یک جا کر دیا گیا ہے۔ علامہ کی خواہش تھی کہ حیات مستعار کاآخری زمانہ سرزمینِ حجازمیں بسر ہو، وہیں دَم نکلے اور وہیں دفن ہوں۔ علامہ کی اس آرزوکو بھی مؤلّف نے مؤثر اسلوب میں بیان کیاہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post علامہ اقبال اور میرحجاز-محمد ایوب منیر appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/29/%d8%b9%d9%84%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%db%8c%d8%b1%d8%ad%d8%ac%d8%a7%d8%b2-%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%db%8c%d9%88%d8%a8-%d9%85%d9%86%db%8c%d8%b1/feed/ 0 10995
مولانا مودودی کی رفاقت میں-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/14/%d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%a7-%d9%85%d9%88%d8%af%d9%88%d8%af%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%b1%d9%81%d8%a7%d9%82%d8%aa-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85/ https://manshurat.pk/2024/11/14/%d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%a7-%d9%85%d9%88%d8%af%d9%88%d8%af%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%b1%d9%81%d8%a7%d9%82%d8%aa-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85/#respond Thu, 14 Nov 2024 06:25:20 +0000 https://manshurat.pk/?p=10933 خواجہ اقبال احمد ندوی صاحب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے اپنے قیامِ پنجاب کے دوران میں ہونے والے واقعات کو بچشمِ سر دیکھا تھا۔ وہ انہوں نے تحریر کردیے اور یہ روداد محفوظ ہوگئی۔ کتاب بڑی خوبی سے مرتب کی گئی ہے۔ یہ سلیم منصور خالد صاحب کا کمال ہے۔ کتاب […]

The post مولانا مودودی کی رفاقت میں-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
خواجہ اقبال احمد ندوی صاحب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے اپنے قیامِ پنجاب کے دوران میں ہونے والے واقعات کو بچشمِ سر دیکھا تھا۔ وہ انہوں نے تحریر کردیے اور یہ روداد محفوظ ہوگئی۔ کتاب بڑی خوبی سے مرتب کی گئی ہے۔ یہ سلیم منصور خالد صاحب کا کمال ہے۔ کتاب آٹھ حصوں میں منقسم ہے اور دو ضمیموں اور اشاریے پر مشتمل ہے۔ سلیم منصور خالد تحریر فرماتے ہیں:
’’خواجہ اقبال احمد ندوی (م:2007ء) مولانا مودودیؒ (1903ء۔ 1979ء) کے ابتدائی رفقا میں سے ہیں۔ انہوں نے چند سال پہلے ’’بدلتے نصب العین‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس نے اہلِ علم سے زبردست داد پائی۔ اسی سلسلے کی دوسری کڑی پیش کی جارہی ہے۔ جب اس روداد کا پہلا حصہ ’’زندگیِ نو‘‘ نئی دہلی میں شائع ہونا شروع ہوا، تب سیّد احمد عروج قادری (23 مارچ 1913ء۔ 17 مئی 1986ء) نے خواجہ صاحب کا تعارف ان الفاظ میں کرایا تھا:
’’دنیا میں ایسے بہت سے جوہر و گوہر ہوئے ہیں، جو اپنی جگہ چھپے رہتے ہیں اور لوگ ان کی قدر و قیمت سے ناواقف رہ جاتے ہیں۔ حکیم خواجہ اقبال احمد ندوی بھی ایک ایسے ہی جوہر ہیں۔ ہندوستان میں ایسے لوگ شاید ہی ہوں، جنہوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمت میں ان کے ایک شاگرد کی حیثیت سے کچھ وقت گزارا ہو۔ حکیم صاحب غیر منقسم جماعت اسلامی کے پہلے بحرانی دور میں مولانا مودودی کے پاس مقیم تھے۔ وہ تشکیلِ جماعت سے کچھ پہلے ہی مولانا مودودی کی خدمت میں پہنچ گئے تھے اور دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ مولانا کی خدمت میں رہے۔‘‘
خواجہ اقبال احمد ندوی نے اس دور کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے:
’’تشکیلِ جماعت سے چند ماہ قبل مولانا مودودی نے مجھے اپنے پاس بلالیا تھا اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ وہ ساری مدت جو مولانا کی خدمت میں گزری، مجھے اُن کی ذات سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے مواقع حاصل رہے، اور مولانا کو ہمیشہ اس کا احساس رہا کہ جس طالب علم کو انہوں نے اپنے پاس خود بلایا ہے اس کا وقت ضائع نہ ہونے پائے… میں نے مولانا کی رہنمائی میں ابن تیمیہ (1263ء۔ 1328ء)، ابن قیم (1292ء۔ 1350ء)، شاہ ولی اللہ (1703ء۔ 1763ء) اور سیرت و تاریخ کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا۔ پھر ان سے سبقاً سبقاً قرآن کا کافی حصہ پڑھا۔ مطالعے کے علاوہ میرے ذمے دفتر کا کچھ کام رہتا تھا۔ اہم خطوط کی نقل بھی میرے ذمے تھی اور وقتاً فوقتاً مولانا مودودی کے دیے ہوئے جوابات کی نقل بھی کرتا تھا۔‘‘ (ماہ نامہ ’’آئین‘‘ لاہور، 25 مئی 1986ء)
بقول مظفر بیگ (م: 24 اپریل 1999ء): ’’اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو وہ پورا دور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا، جب کچھ لوگ ایک تحریک کا آغاز کرنے کے لیے آگے بڑھے، اور جب آغاز ہوا تو ان میں سے کچھ واپس لوٹ گئے۔ اور تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ ]ان[ واپس جانے والوں نے اپنی واپسی کا ’’مکمل جواز‘‘ بتانے کے لیے اس دور کا انتخاب کیا، جب ہماری صدی کا وہ انسان دنیا سے رخصت ہوچکا تھا، کہ جس کے بارے میں وہ بتانے چلے تھے… لیکن قدرتِ حق تو برسوں پہلے، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے کو وہاں پہنچا چکی تھی۔ یہ انہی حکیم خواجہ اقبال احمد ندوی کے دیکھے ہوئے حقائق کی روداد ہے‘‘۔
یہ مضامین جناب اقبال احمد ندوی نے مولانا محمد منظور نعمانی (15 دسمبر 1905ء۔ 5 مئی 1997ء) اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (24 نومبر 1914ء۔ 31 دسمبر 1999ء) کی زندگی ہی میں لکھے تھے۔ اخبار ’’دعوت‘‘ اور ماہ نامہ ’’زندگیِ نو‘‘ میں ان کی اشاعت ہوئی اور یقیناً ان محترم حضرات کے مطالعے سے بھی گزرے، لیکن ان کی جانب سے اس سلسلۂ مضامین سے کسی اختلاف یا کسی ردعمل کا ظہور نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہاں پر لازماً اس کا جائزہ بھی شاملِ اشاعت کرتے۔
ہمیں اس روداد کو پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ خود مولانا مودودی نے ہمیشہ ایسے جواب الجواب سلسلے میں وقت اور کاغذ ضائع کرنے سے دامن بچایا۔ لیکن تقویٰ کی حامل بعض ’’ہستیوں‘‘ نے مولانا مودودی کی رحلت کے بعد بھی ان پر طعنہ زنی کا ’’مقدس‘‘ فریضہ انجام دینے کا سلسلہ جاری رکھا، بلکہ اس میں کچھ زیادہ ہی شدت پیدا کی۔ معروف مؤرخ اور ادیب آباد شاہ پوری (6 جون 1923ء۔ 29 ستمبر 2003ء) کے بقول: ’’مولانا نعمانی صاحب نے ’’رفاقت کی سرگزشت‘‘ لکھ کر آنے والی نسلوں کو بھی سیّد مودودی سے بدظن کرنے کے ’صدقۂ جاریہ‘ کا اہتمام فرمایا‘‘
۔ پھر ان کی سخن سازیوں اور الزام تراشیوں کے یہ نمونے پاک و ہند کے دو مذہبی سلسلوں نے کارِ خیر سمجھ کر پھیلانا شروع کیے، تو ہمیں بادلِ نخواستہ یہ حقائق پیش کرنا پڑے ہیں (یاد رہے کہ محترم مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کی اسی کتاب کا ایک مفید تجزیہ محترم ڈاکٹر سید انور علی نے ’’ردِ سرگزشت‘‘ کے عنوان سے 1981ء میں مرتب کیا تھا۔)
راقم نے ان مضامین کو یک جا صورت میں پہلی بار 1998ء میں پیش کیا تھا۔ اب حکیم صاحب کی مزید یادداشتوں کے اضافے اور متن کی تصحیح، حوالہ جات کی صحت، حواشی کی تدوین، ضمنی سرخیوں کے تعین اور ضروری پیراگرافی کے ساتھ یک جا پیش کیا جارہا ہے۔ 2018ء کی اشاعت میں، خواجہ اقبال احمد ندوی سے ڈاکٹر سید عبدالباری (شبنم سبحانی: 7 ستمبر 1937ء۔ یکم ستمبر 2013ء) کا مکالمہ بھی بطور ضمیمہ شامل ہے۔
اس کام کی تکمیل کے لیے اپنے استادِ گرامی محترم جمیل احمد رانا (30اپریل 1934ء۔ 6 جنوری 2015ء، کلورکوٹ) کی حوصلہ افزائی پر ان کا شکرگزار ہوں‘‘۔
کتاب نہایت خوب صورت، منشورات کے اعلیٰ اسلوب و روایت کے مطابق شائع کی گئی ہے۔ سادہ اور رنگین سرورق سے مزین ہے۔ یہ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن ہے۔ جماعت کی تاریخ کے ایک گوشے کا بیان ہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post مولانا مودودی کی رفاقت میں-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/14/%d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%a7-%d9%85%d9%88%d8%af%d9%88%d8%af%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%b1%d9%81%d8%a7%d9%82%d8%aa-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85/feed/ 0 10933
ڈاکٹر فوزیہ ناہید شخصیت، تحریک ، خدمات-ارشادالرحمنٰ https://manshurat.pk/2024/11/14/%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d9%81%d9%88%d8%b2%db%8c%db%81-%d9%86%d8%a7%db%81%db%8c%d8%af-%d8%b4%d8%ae%d8%b5%db%8c%d8%aa%d8%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%d8%8c-%d8%ae%d8%af%d9%85%d8%a7%d8%aa/ https://manshurat.pk/2024/11/14/%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d9%81%d9%88%d8%b2%db%8c%db%81-%d9%86%d8%a7%db%81%db%8c%d8%af-%d8%b4%d8%ae%d8%b5%db%8c%d8%aa%d8%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%d8%8c-%d8%ae%d8%af%d9%85%d8%a7%d8%aa/#respond Thu, 14 Nov 2024 06:10:16 +0000 https://manshurat.pk/?p=10930 زندگی بہت بڑا انعام ہے، اور وہ زندگی تو اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، جو اُس کی بنائی ہوئی صراطِ مستقیم پر چلنے کی جستجو میں گزرے، پھر ایسی زندگی اور بھی قابلِ رشک ہے جو صراطِ مستقیم پر چلانے کے لیے لمحہ بہ لمحہ بسر ہو۔ کس قدر خسارے کی بات ہے […]

The post ڈاکٹر فوزیہ ناہید شخصیت، تحریک ، خدمات-ارشادالرحمنٰ appeared first on Manshurat.

]]>
زندگی بہت بڑا انعام ہے، اور وہ زندگی تو اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، جو اُس کی بنائی ہوئی صراطِ مستقیم پر چلنے کی جستجو میں گزرے، پھر ایسی زندگی اور بھی قابلِ رشک ہے جو صراطِ مستقیم پر چلانے کے لیے لمحہ بہ لمحہ بسر ہو۔ کس قدر خسارے کی بات ہے کہ ایسی قابلِ رشک زندگیاں ہمارے معاشروں میں بہت کم ہیں، حالانکہ یہی ہیں وہ زندگیاں جو اسلام کو مطلوب ہیں اور جن کے قحط نے امت کو ہی خوار وزبوں کردیا ہے۔

ایک ایسی ہی خوش نصیب زندگی ڈاکٹر فوزیہ ناہید مرحومہ کی صورت ہمارے اسی ماحول میں حق، شہادت، جستجو، تڑپ، تنظیم، تربیت اور محبت کی شمعیں فروزاں کرکے رب کے حضور پیش ہوگئی، کہ دیکھنے اور سننے والے حیرت، رشک اور تشکر کے جذبات سے معمور ہیں۔

محترمہ ڈاکٹر فوزیہ ناہید نے شادباغ، لاہور کے چند پڑوسی گھروں کی دین دار معاشرت سے جو خوشبو پائی، اس خوشبو نے اُن کی روحانی زندگی کو ایمان سے معطر کیا۔ یہ انوکھی خوشبو اُن کی زندگی کی حد درجہ قیمتی متاع تھی۔ ایک سعادت مند فرد کی حیثیت سے وہ سدا بہار خوشبو کو پاکستان میں بکھیرتے ہوئے، شمالی امریکہ جاپہنچیں۔ پھر اپنی زندگی کے آخری بارہ برسوں میں حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو ایسی جاں فشانی اور فرزانگی سے شہر شہر اور ریاست در ریاست پھیلایا کہ ان کے کارنامۂ حیات کے احوال پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور پڑھنے والے کی طبیعت میں ایک جوش اور عزم پیدا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اللہ پاک نے انہیں ندرتِ خیال اور حکمتِ برہانی سے سرشار کر رکھا تھا۔

یہ کتاب ایسا سرچشمۂ فیض ہے کہ جس سے ہر ملک کے لوگ برابر رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کتاب کو پھیلانا ایک نیکی ہے اور یہ تقاضا بھی کہ عملِ صالح کے لیے سرگرم رہا جائے۔ گرد پوش، کاغذ، حروف خوانی سب کچھ بہت ہی شان دار ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post ڈاکٹر فوزیہ ناہید شخصیت، تحریک ، خدمات-ارشادالرحمنٰ appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/14/%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d9%81%d9%88%d8%b2%db%8c%db%81-%d9%86%d8%a7%db%81%db%8c%d8%af-%d8%b4%d8%ae%d8%b5%db%8c%d8%aa%d8%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%d8%8c-%d8%ae%d8%af%d9%85%d8%a7%d8%aa/feed/ 0 10930
شجرہائے سایہ دار-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/14/%d8%b4%d8%ac%d8%b1%db%81%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%b3%d8%a7%db%8c%db%81-%d8%af%d8%a7%d8%b1-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/ https://manshurat.pk/2024/11/14/%d8%b4%d8%ac%d8%b1%db%81%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%b3%d8%a7%db%8c%db%81-%d8%af%d8%a7%d8%b1-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/#respond Thu, 14 Nov 2024 05:47:20 +0000 https://manshurat.pk/?p=10927 زیر نظر کتاب ’’شجرہائے سایہ دار‘‘ حیاتِ مودودیؒ کے سلسلے کی ایک اہم کتاب ہے، کیونکہ یہ مولانا کے اہلِ خانہ نے تحریر کی ہے، اور یہ اس کا چودھواں ایڈیشن ہے جو اہتمام کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔ مرتب جناب سلیم منصور خالد تحریر فرماتے ہیں ۔’’2003ء، تذکارِ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے […]

The post شجرہائے سایہ دار-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
زیر نظر کتاب ’’شجرہائے سایہ دار‘‘ حیاتِ مودودیؒ کے سلسلے کی ایک اہم کتاب ہے، کیونکہ یہ مولانا کے اہلِ خانہ نے تحریر کی ہے، اور یہ اس کا چودھواں ایڈیشن ہے جو اہتمام کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔ مرتب جناب سلیم منصور خالد تحریر فرماتے ہیں
۔’’2003ء، تذکارِ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے ایک یادگار سال تھا۔
سیّدی [3 رجب 1321ھ/ 25 ستمبر 1903ء۔ 30 شوال1399ھ/ 22 ستمبر 1979ء] کے صد سالہ سالِ ولادت کو حوالہ بناتے ہوئے، اس برس کے دوران نہ صرف پاکستان میں، بلکہ بیرونِ ملک بھی مختلف علمی اداروں نے مذاکروں، مضامین، مقالات اور مطبوعات کے ذریعے بھی اس بطلِ جلیل کی علمی و دینی خدمات کا اعتراف کیا۔ یہ اعتراف اور یہ تذکرہ، مرحوم کی ایمانی غیرت، مجاہدانہ جرأت اور علمی بصیرت کی سچائی کا مظہر ہے۔ سید مودودیؒ انہی مردانِ راہ میں سے تھے، جن کے بارے میں اقبال کہہ گئے ہیں:۔

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور کی دو خصوصی اشاعتیں (اکتوبر 2003ء اور پھر اپریل 2004ء) اسی تذکرے کا ایک حصہ تھیں۔ مذکورہ خصوصی اشاعتوں میں قوسِ قزح کے رنگ تھے، پاکیزہ جذبوں کی آنچ تھی اور رہوارِ قلم کو روک روک کر چلنے کا قرینہ تھا۔
انہی مضامین میں سید محترم کی صاحبزادی سیدہ حمیرا خاتون صاحبہ کا مضمون ’’شجرہائے سایہ دار‘‘ سامنے آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ صبر سے گندھے، آنسوئوں سے لکھے اور خوشبو میں ڈھلے اس نثرپارے میں ایک عبدِ رحمٰن اور عاشقِ رسولؐ کی زندگی کا ایک عکس تھا:۔

ارمغانِ آخرت ہے، لذتِ عشقِ رسولؐ
’’ترجمان القرآن‘‘ کا دامن ایک مختصر مضمون کی گنجائش ہی نکال سکتا تھا، لیکن طلب کی شدت کا تقاضا تھا کہ اس گلدستے میں مزید پھول سجائے جائیں۔ مسلسل تقاضوں کے جواب میں، یادوں کے چمن سے جو پھول کھلتے گئے، انہیں یک جا کرتا گیا تو اس مضمون کا حجم بارہ، تیرہ گنا تک بڑھ گیا۔ ان یادداشتوں کی تدوین کے دوران ممکن حد تک تحقیق و جستجو سے کام لیا، اور پھر انہیں کتابی صورت دے دی گئی ہے۔ اس تعاون پر ہم محترمہ سیدہ حمیرا خاتون کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنے عظیم والدین کی زندگی کے اُن گوشوں تک قارئین کی رسائی ممکن بنائی ہے کہ جن میں رہنمائی کے بے شمار آثار نمایاں اور رنگ جگمگا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ کتاب سید مودودیؒ اور ان کے اہلِ خانہ کی رودادِ زندگی کا ایک عکس ہے۔
2010ء میں اس کتاب کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد سب سے پہلے اس کا بنگالی میں ترجمہ ڈھاکا سے شائع ہوا۔ پھر ڈاکٹر نور محمد جمعہ نے فارسی، تاجک اور عربی میں ترجمہ کیا، ترکی اور تامل میں بھی ترجمہ شائع ہوا، جب کہ جناب طارق جان نے کتاب کے خاصے حصے کو انگریزی میں ڈھالا۔ 2019ء میں اس کتاب کو چند اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس صدقۂ جاریہ کو قبولیت عطا فرمائے۔ سید مودودیؒ نے زندگی کا ایک ایک لمحہ، اپنے سارے رشتے اور اپنے تمام جذبات، جس مقصدِ حیات کی نذر کردیے، اللہ تعالیٰ اس شمعِ حق کو فروزاں رکھے اور اس کتاب کو قافلے کی راست روی پر گامزن رہنے کا ذریعہ بنائے۔ آمین‘‘۔
اس قسم کی مبارک کتب کو پڑھنے سے راستے روشن ہوتے ہیں، عملِ صالح کو تحریک اور جہدِ مسلسل کی تشویق ہوتی ہے۔ ہدایت اللہ جل شانہٗ کے پاس ہے، وہی ہادی و مُعز ہے۔ اعمال وہی اچھے ہیں جو دنیا اور آخرت میں نافع اور وزن دار ہوں۔ سیدہ حمیرا مودودی کے قلم سے یہ دل دوز اور جگر سوز تحریر اردو ادب کے لیے باعثِ شرف ہے۔ سیدہ تحریر فرماتی ہیں:۔
’’والدِ محترم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ملّتِ اسلامیہ کا سرمایہ تھے، اور ان کی یادیں بھی ملّت کی امانت ہیں۔ اسی سلسلے میں کچھ یادداشتیں ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور کی اشاعتِ خاص (مئی 2004ء) میں پیش کی تھیں۔
دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا بہت آسان ہے، لیکن خود صبر کرنا بہت مشکل کام ہے۔ صبر سب سے کڑوا گھونٹ ہے، اور میں نے اپنی دادی اماں اور اپنے والدین کو ساری زندگی یہ تلخ گھونٹ قطرہ قطرہ پیتے اور کمال صبر کا مظاہرہ کرتے دیکھا ہے۔ اس طرح یہ داستان صبر کے گھونٹوں کی داستان ہے۔ آنکھ میں ہے وہ قطرہ جو گہر نہ بن سکا، لیکن یہ آنسو آنکھوں ہی میں رہے، کبھی پلکوں سے ٹپکنے نہ پائے… انہیں کبھی ٹپکنے کی اجازت نہیں دی گئی! کیونکہ دادی اماں نے کہہ دیا تھا: ’’روتے کے ساتھ کوئی روتا نہیں ہے، جب کہ ہنستوں کے ساتھ سب ہنستے ہیں۔ رونے والوں کا تو دنیا صرف تماشا دیکھتی ہے!‘‘
بیسویں صدی اس اعتبار سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صدی تھی کہ انہوں نے افکار کی دنیا میں انقلاب برپا کیا اور عالمِ اسلام کی بیش تر دینی تحریکوں نے ان کی برپا کی ہوئی تحریک سے غذا حاصل کی۔ کسی مصنف کی عظیم تخلیقات تب ہی وجود میں آتی ہیں، جب اس کے قریب ترین لوگ اسے ذہنی سکون اور آسودگی فراہم کرتے ہیں۔
زیر نظر کتاب محض یادوں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ایک بطل جلیل (جن کو سید قطب شہیدؒ نے اپنی معرکہ آرا تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں ’’المسلم العظیم‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے) اور ایک عظیم سپوت کے عظیم والدین اور ان کی عظیم شریکِ حیات کے صبر و ثبات کی داستانِ عزیمت ہے۔ اس عظیم اسلامی تحریک کے داعی کا تعلق اس گھر سے تھا، جس میں چھوٹے چھوٹے نو بچے تھے، والدہ تھیں اور انتہائی کمزور صحت والی دمے کی مریضہ شریکِ حیات تھیں… اگر اس گھر کے مکین ایک لمحے کے لیے بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے، تو یہ سب کچھ ایسے نہ ہوتا جیسا کہ آج نظر آرہا ہے۔
تحریک، عمل اور قیادت کا تعلق بہرحال انسانوں اور ان کے رویوں سے ہوتا ہے۔ کوئی محاذ کی پہلی صف میں اور کوئی پچھلی صف میں ہوتا ہے، اور بعض بظاہر محاذ پر بھی نظر نہیں آتے، مگر معرکے میں ان سبھی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ یہ داستان دراصل قربانی اور خودداری کی داستان ہے۔ ’’اس گھر‘‘ کی ایک جھلک اس کتاب میں آگئی ہے، جس سے قارئین کو کچھ تھوڑا سا اندازہ ہوپائے گا کہ:۔

کیا ’گزرتی‘ ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
رسالے کے محدود صفحات کی بنا پر ’’شجرہائے سایہ دار‘‘ (دادی اماں، ابا جان اور اماں جان) کے بارے میں کچھ زیادہ نہ لکھا جاسکا تھا… چنانچہ کتاب کے مرتب کے مسلسل اصرار اور والہانہ شوق کے نتیجے میں، اس مضمون کو نظرثانی اور کافی اضافوں کے بعد قارئین کی نذر کیا جارہا ہے‘‘۔
اللہ جل شانہٗ نے سیدہ حمیرا مودودی کو قلمِ وقیع عطا کیا ہے جس سے وہ اردو اور عربی میں نثر وقیع ایک خاص ادبی اسلوب میں تحریر فرماتی ہیں۔ عرصہ ہوا ہمارے محلے میں ایک اسٹیشنری کی دکان پر رسائل بھی آتے تھے جن میں عربی اور فارسی رسائل بھی ہوتے تھے، ان میں ایک رسالہ ’’المسلمون‘‘ بھی ہوتا تھا جو ایک ہفت روزہ تھا اور اس وقت غالباً جدہ سے شائع ہوتا تھا۔ اس میں کئی قسطوں میں مولانا پر عربی میں مقالہ سیدہ حمیرا کے قلم سے شائع ہوا۔ جس دن رسالہ آنے کا امکان ہوتا راقم دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر آتا جاتا رہتا۔ کئی قسطیں راقم نے اسی طرح خریدیں۔ ان کے پاس یہ مضمون ہوگا،

جناب سلیم منصور خالد اس طرف توجہ فرمائیں اور اس کو بھی اپنے مکتبے سے شائع کریں۔ خوش قسمتی سے اس کتاب کا ترجمۂ فارسی اپنے ہاں نکل آیا، اس کا ٹائٹل بھی اس تعارف کے ساتھ دے رہے ہیں۔ فارسی میں جناب نور محمد امراء نے اس کا خوب صورت فارسی ترجمہ کیا ہے جو نشرِ احسان تہران سے شائع ہوا ہے، تین ہزار کی تعداد میں طبع کیا گیا ہے۔ چند اردو فقروں کا فارسی ترجمہ قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش خدمت ہے۔
سیدہ حمیرا مودودی نے تحریر کیا:۔
’’دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا بہت آسان ہے، لیکن خود صبر کرنا بہت مشکل کام ہے۔ صبر سب سے کڑوا گھونٹ ہے اور میں نے اپنی دادی اماں اور اپنے والدین کو ساری زندگی یہ تلخ گھونٹ قطرہ قطرہ پیتے اور کمال صبر کا مظاہرہ کرتے دیکھا ہے۔ اس طرح یہ داستان صبر کے گھونٹوں کی داستان ہے۔ آنکھ میں ہے وہ قطرہ جو گہر نہ بن سکا، لیکن یہ آنسو آنکھوں ہی میں رہے، کبھی پلکوں سے ٹپکنے نہ پائے… انہیں کبھی ٹپکنے کی اجازت نہیں دی گئی! کیونکہ دادی اماں نے کہہ دیا تھا: ’’روتے کے ساتھ کوئی روتا نہیں ہے، جب کہ ہنستوں کے ساتھ سب ہنستے ہیں۔ رونے والوں کا تو دنیا صرف تماشا دیکھتی ہے!‘‘
جناب نور محمد امرا نے اس اقتباس کا درج ذیل ترجمہ کیا:۔
’’صبر، تلخ ترین شرابِ وجوداست و باچشمان خود نظارہ کر بودم کہ چکونہ مادر و مادر بزرگم قطرہ قطرۂ آن سرمی کشیدند۔ این خاطرات داستان آن قطرہ ھائی تلخ صبر است، قطرہ ھائی اشکی کہ نہ درچشمان امید بہ گوھر بدل شدند و نہ پلکان صبر و مژگان استقامت بدانھا اجازۂ بیرون پریدن دادند! زیرا مادر بزرگ فی گفت: بافرد گریان کسی نمی گرید، ولی باخندان ھمہ می خندند، پس بخند تا دنیا بہ رویت بخندد‘‘۔
کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اہتمام کے ساتھ یہ نیا ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن طبع کیا گیا ہے۔ یہ اس کا چودھواں اردو ایڈیشن ہے جو اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post شجرہائے سایہ دار-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/14/%d8%b4%d8%ac%d8%b1%db%81%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%b3%d8%a7%db%8c%db%81-%d8%af%d8%a7%d8%b1-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/feed/ 0 10927
سیکولر ازم مباحث اور مغالطے-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%b3%db%8c%da%a9%d9%88%d9%84%d8%b1-%d8%a7%d8%b2%d9%85-%d9%85%d8%a8%d8%a7%d8%ad%d8%ab-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%ba%d8%a7%d9%84%d8%b7%db%92-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad/ https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%b3%db%8c%da%a9%d9%88%d9%84%d8%b1-%d8%a7%d8%b2%d9%85-%d9%85%d8%a8%d8%a7%d8%ad%d8%ab-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%ba%d8%a7%d9%84%d8%b7%db%92-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad/#respond Wed, 13 Nov 2024 10:03:40 +0000 https://manshurat.pk/?p=10924 جناب طارق جان کی گرانقدر کتاب سیکولرزم مباحث اور مغالطے کا یہ چوتھا ایڈیشن ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ایمل مطبوعات اسلام آباد اور تین ایڈیشن منشورات لاہور سے شائع ہوئے ہیں جو کتاب کی استناد اور مقبولیت کی نشانی ہے۔ جناب طارق جان ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک صاحب مطالعہ فرد، سنجیدہ […]

The post سیکولر ازم مباحث اور مغالطے-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
جناب طارق جان کی گرانقدر کتاب سیکولرزم مباحث اور مغالطے کا یہ چوتھا ایڈیشن ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ایمل مطبوعات اسلام آباد اور تین ایڈیشن منشورات لاہور سے شائع ہوئے ہیں جو کتاب کی استناد اور مقبولیت کی نشانی ہے۔
جناب طارق جان ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک صاحب مطالعہ فرد، سنجیدہ محقق اور راست فکر و دانش ور کی حیثیت سے وسیع حلقۂ تعارف رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ اور کچھ عرصہ فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں تدریسی عمل سے متعلق رہے۔ ان کے مضامین قومی اخبارات The News, The Muslim , The Nation اور نوائے وقت میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو جلدوں میں ان کا تحریر کردہ مطالعہ امتیازی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح سیکولر ازم سے متعلقہ امور تحریک پاکستان کے مدارج اور تاریخ پاکستان گہری نظر رکھتے ہیں۔

جناب طارق جان کی مطبوعہ اور زیر طبع کتب درج ذیل ہیں۔
The Life and Times of Muhammad Rasul Allah: Universalizing the Abrahamic Tradition
Pakistan Between Secularism and Islam: Ideology, Issues, and Conflict
The Secular Threat to Pakistan’s Security
Engaging secularism Limits of a Promise
تراجم
The Four Key Concepts of the Qur`an
مولانا مودودی کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘کا انگریزی ترجمہ
Islam and the Secular Mind
(تنقیحات اور تفہیمات کے مقالات کا ترجمہ)
زیر طبع
Muhammad Rasul Allah- Making the Universal Community
The Problem with Early Muslim Historiography
Christianity as Seen through a Muslim Eyes
سیکولرزم مباحث اور مغالطے اپنے طرز کی منفرد کتاب ہے جس بغور مطالعہ ہر پاکستانی کو کرنا چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں ہونے والے فساد کی جڑوں تک پہنچ سکے۔ سیکولرزم ایک خدا فراموش نظام حیات کا نام ہے جو مسلمانوں کو اسلام کے اجتماعی نظام سے برگشتہ کرنا چاہتاہے جبکہ اللہ جل شانہ کا فرمان اور فیصلہ ہے
ترجمہ: ’’جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین (نظام حیات) کو اختیار کرنا چاہا اس کے دین کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہوگا۔،، (آل عمران3 :85 )
اس لیے ضروری ہے جو غیراسلامی افکار ہمارے ہاں رائج کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ان کا نوٹس لیا جائے ان کا تجزیہ کیا جائے اور ان خطرناکی کو واضح کیا جائے اسی سلسلے میں زیرنظر کتاب بھی منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ایک معلومات افزا عالمانہ تجزیوں پر مبنی کتاب ہے جس کی تحسین اہل علم نے کی ہے ہم ان کی آرا یہاں درج کرتے ہیں جناب سلیم منصور خالد کی رائے ہے۔
’’طارق جان کے یہ تجزیاتی نثر پارے ہمارے فکری لٹریچر میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں ان میں بہ یک وقت: مطالعاتی وسعت ، دانش ورانہ گہرائی، عادلانہ دماغ، ملی حمیت، تہذیبی شعور اور قلندرانہ عزم ، ہم رنگ اور ہم آغوش نظر آتے ہیں۔ ان مقالات میں راست گوئی پر مغربی تہذیب و استعماریت کے دیسی وعدہ معاف گواہ بلبلا اٹھیں گے او رمسلم تہذیب کے وابستگان لذت عمل سے سرشار ہوں گے۔
طارق جان نے مغرب زدگان کی مغالطہ انگیزی، کذب بیانی، موقع پرستانہ نظریہ سازی اور فکری فسطائیت کو بڑی خوبی سے پرکھا ہی نہیں، بے نقاب بھی کیا ہے۔ انہوں نے دو اور دوچار کی طرح ثابت کیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی بے مہار قوت اور اقتدار کے سرچشموں پر قبضے کے بل پر یہ طائفہ درحقیقت ذہنی انتشار ، اباحیت پسندی، تلخ عصبیت اور اندھی لذتیت کے غلاموں پر مبنی ایک اقلیتی گروہ ہے، جس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ اس سارے عمل میں انہوں نے جذباتی رستہ اختیار کرنے کے بجائے مغربی فکر و دانش کو پرکھا اور اپنے جواب دعویٰ میں برتا ہے۔،،
مشہور مورخ، محقق اور اہل دانش ور ڈاکٹر صفدر محمود کی وقیع رائے ہے۔
’’طارق جان کی کتاب ’سیکولرزم: مباحث اور مغالطے،، نے مجھے حد متاثر کیا ہے او رمصنف کے لیے دل سے دعا نکلی ہے، جنہوں نے قارئین کو بہت سے مغالطوں اور کنفیوژن کے اندھیروں سے نکالنے کی موثر کوشش کی ہے۔ طارق جان کا اسلوب بیان علمی اور عام فہم ہے۔ ان کی یہ تصنیف اعلیٰ درجے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ دلیل کے ساتھ حوالے اس کا ثبوت ہیں۔’’ بلاشبہ یہ کتاب جدید نسل کے لیے ایک لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی لکھتے ہیں اسلام کے بارے میں لکھی جانے والی کتب چاہے کسی مسلمان نے لکھی ہوں یا غیر مسلم نے ، ان کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسلام کے بارے میں رطب ویابس پر مبنی کتابیں سیلاب کی مانند امڈ چلی آرہی ہیں۔افسوس کہ اس خطرناک صورتحال میں ممتاز گرانقدر اور قابل توجہ کتب کم دکھائی دیتی ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں طارق جان کی کتاب Engaging Secularism Limits of a Promiseہرگز روایتی دستاویز نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ایک جداگانہ اور منفرد اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ مصنف نے بے خدا مغربی فکر و دانش کی فرسودگی کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔
معروف صحافی ‘دانشور، نقاد، تجزیہ کارسجاد میر کی نظر میںطارق جان کی کتاب ’سیکولرزم: مباحث اور مغالطعے، کا میں خوش دلی سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ انہوں نے قومی سلامتی کے تناظر میں بحث کو کمال ہنرمندی سے اٹھایا اور پیہم دلیل سے آگے بڑھایا ہے۔
ہارون الرشید… کالم نویس، دانشور ، تجزیہ کار
فکر انگیز تحریر اور مؤثر اسلوب سے بیان نے اس کتاب کو دوآتشہ بنادیا ہے، یہ کاریگری صرف طارق جان ہی کرسکتے تھے۔
پروفیسر اکبر ایس احمد، چیئرمین ابن خلدون چیئر، امریکن یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی کے مطابق’’اس قدر عراق ریزی اور جانفشانی سے یہ تحقیقی کارنامہ انجام دے کر طارق جان نے حیرت کا ایک جہان کھول دیا ہے۔ اورنگ زیب ، علامہ اقبال اور قائداعظم پر لکھے گئے ابواب تو اس ملک میں کئی عشروں سے بولے جانے والے جھوٹ سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ کمال اس تحریر کا یہ ہے کہ کسی افسانے کی طرح دلچسپ ہے اور کسی جاسوسی ناول کی طرح ہر صفحے پر ایک نئی حیرت اور نئے انکشاف سے آپ کا سامنا کراتی ہے۔
درددل اور عقل و ہوش سے لکھے جانے والی اس کتاب کا اجر تو اللہ کے پاس ہے کہ یہ ایسے امور کے دفاع میں لکھی گئی، جس سے اللہ کی غیرت اور حرمت وابستہ ہے۔
اوریامقبول جان… دانشور، کالم نگار
یہ کتاب پاکستان میں سیکولرزم کی تاریخ اور اس کے ماضی و حال پر ایک جان دار تبصرہ اور تجزیہ ہے۔ کتاب کا مطالعہ، تاریخ کے طالب علم کو پاکستان کے فکری اور تاریخی پس منظر سے واقف کرانے کے ساتھ اس فکری کشمکش سے بھی شناسائی دیتا ہے جو آج اسی قدر پیچیدہ اور حل طلب ہے ، جتنی قیام پاکستان کے بعد اولین برسوں میں تھی۔ ضرورت ہے کہ زیر بحث موضوع کو مزید ہمہ جہت اور جامع بنانے کے لیے سیکولرلابی کے ساتھ ساتھ شدت پسند، جامد مذہبی نقطہ نظر کا بھی بے لاک مطالعہ کیا جائے تاکہ پیش منظر زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آسکے اور طارق جان یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اسما آفتاب… جی سی یونیورسٹی ، فیصل آباد
طارق جان کی دانش میں اخلاص اور سچائی کی روشنی ہے۔ و تضادات سے پاک تحریر لکھتے ہیں اور اپنے موضوع پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان سے اختلاف تو کرسکتے ہیں لیکن انہیں نظرانداز نہیں کرسکتے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ماضی کو بوجھ نہیں سمجھتے، یوں کہہ لیں کہ نہ وہ جدید کاری سے محترز ہیں اور نہ قدامت شناسی سے گریزپا۔ ان کی کتاب بلاشبہ ایک انتہائی موثر تحریر ہے۔
کتاب میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں ان کے عنوانات درج ذیل ہیں۔
٭لادین خطرات؟ ٭ بت پرستی کا نیا روپ سیکولرزم٭ سیکولر الحاد‘ مذہب اور سائنس٭سیکولر زم لادینیت ہے٭ جدیدیت‘ سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ٭ دانشوری یا تخریب کاری؟٭ قرارداد مقاصد اور سیکولر مغالطے٭ سیکولر لابی‘ تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر: ماخذ کا تنقیدی جائزہ٭سیکولر جماعتیں ‘ صحافت اور تخریب٭ سیکولر حلقے اور اقبال٭ قائداعظم محمد علی جناح کی سیکولر صورت گری٭ دریدہ دہن آزاد خیالیاں٭ لادین آزاد روی سے قومی آزادی کو خطرہ٭ قانون توہین رسالت: آزادی اور انارکی میں خظ امتیاز٭ حدود قوانین کے خلاف لادینوں کی صف آرائی٭ قرارداد مقاصد اور ہماری صحافت٭ میڈیا کو کتنا آزاد ہونا چاہیے؟٭

مسلم قیادت کی ناکامی کا سبب٭ قومی خارجہ پالیسی کے تقاضے تزویراتی ‘ ثقافتی صحافتی پس منظر میں٭ پاکستان‘ ہندوستان تعلقات: امن سپرداری میں نہیں٭ سی ٹی بی ٹے: استعمار کا نیا روپ اور اس کے سیکولر حمایتی٭ کشمیر پھر ابل رہا ہے٭ انصاف کا طالب کشمیر او رپتھر دل اقوام متحدہ٭ غیرسرکاری تنظیمیں ‘ فتنہ گری کا نیا سامان٭ دعا اور سجدے سے چڑ٭ مذہب زندگی سے لاتعلق نہیں رہ سکتا: عالیجاہ عزت بیگووچ کا افکار٭ سیکولر زم اور حد کا مسئلہ٭ حوالہ جات٭ اشاریہ۔
کتاب کے آخر میں جناب ہارون الرشید اور جناب اوریا مقبول جان کے دو مضامین بھی لگائے گئے ہیں، جن میں کتاب پر آرا دی گئی ہیں۔
طارق جان روداد تالیف کے تحت لکھتے ہیں۔
میں نے ماضی میں اس موضوع پر جو کچھ لکھا‘ وہی اب اس کتاب میں سموکر پیش کررہا ہوں۔ کہیں نئی شہادت سامنے آئی تو وہ حصے ازسرنو لکھے۔ بعض اجزا کو یوں تقویت دی کہ موضوع کے جدا جدا پہلوئوں سے بحث کرنے والے دو مختلف ٹکڑے آپس میں ملادیے گئے۔ا س کی مثال: ’’خارجہ پالیسی اور اس کے تقاضے‘ والا باب ہے۔ چند مباحث ایسے بھی تھے جنہیں ہمارا ’’مدرپدر آزاد‘ پریس شائع کرنے سے انکاری تھا۔ اس کی نمایاں مثالیں ’’غیرسرکاری تنظیمی: فتنہ گری کا نیا ساماں‘‘ اور ’’حدود قوانین کی لادین مخالفت‘‘ ’’دعا اور سجدے سے چڑ‘‘ اور ’’سیکولرزم لادینیت ہے‘‘ والے ابواب ہیں۔
کم از کم تین تحریریں ایسی ہیں جو علمی مجالس اور سیمیناروں یا خصوصی نشستوں میں پیش کی گئی تھیں۔ ’’سیکولر جماعتیں‘ صحافت اور تخریب‘‘ میرے اس مقالے کی توسیع شکل ہے جو چند برس ہوئے نیشنل ڈیفنس کالج میں پڑھا گیا تھا۔’’حدود قوانین کی لادین مخالفت‘‘ بھی ایک مقالہ تھا جو SDPI کے ایک سیمینار میں ایک مختلف عنوان کے تحت پیش کیا گیا تھا۔ مقالہ کی موجودہ تسوید و ترکیب میں چند تبدیلیاں کردی گئی ہیں’’سی ٹی بی ٹی: استعمار کا نیا روپ‘‘ بھی ایک طویل مقالہ ہے جو 29 اپریل 2000 ء کو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام منعقدہ ایک علمی مجلس میں پڑھا گیا تھا۔ اب ان سب اداروں کے باقاعدہ شکر و امتنان کے ساتھ یہ مقالہ جات کتاب میں شامل کردیے گئے ہیں۔
’’سیکولر لابی‘ تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر‘ ان کے ماخذوں کا تنقیدی جائزہ‘‘ ، ’’دانشوری یا تخریب کاری‘‘،’’سیکولر الحاد‘ مذہب اور سائنس‘‘، ’’سیکولر زم لادینیت ہے‘‘، ’’بت پرستی کا نیا روپ سیکولر زم‘‘، ’’سیکولر زم اور وحد کا مسئلہ‘‘، ’’جدیدیت ‘ سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ‘‘، ’’میڈیا کو کتنا آزاد ہونا چاہیے‘‘، ’’قراردادمقاصد اور ہماری صحافت‘‘، ’’قرارداد مقاصد اور سیکولر مغالطے‘‘ نئے مضامین ہیں۔ ان میں سے بعض میری آمدہ انگریزی کتاب Engaging Secularism سے مستعار ہیں۔
ان سب تحریروں کا سررشتہ صرف ایک ہے جس نے انہیں ایک لڑی میں پرودیا ہے‘ یعنی لادینیت او رہماری قومی سلامتی کے لیے اس کے مضمرات ۔ میری اس پیشکش میں ان مضر نتائج و اثرات کی پیش بینی کی گئی ہے جو لادین ذہن کی طرف سے ہمای قومی سلامتی کو پیش آسکتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرلیا گیا تو میں سمجھوں گا کہ میری کوشش باآور رہی اور میں نے اپنا مقصد پالیا۔ احساس زیاں ہوجائے تو مسئلے کا حل سامنے آتے دیر نہیں لگتی۔
یہ کتاب اشاعت کے مرحلے تک نہ پہنچتی اگر اس میں میرے دیرینہ رفیق صاحبزادہ محب الحق صاحب کا ساتھ نہ ہوتا۔ انہوں نے میرے کہے بغیر انگریزی کتاب کا ترجمہ کر ڈالا۔ کچھ دیگر مضامین کا ترجمہ حسب فرمائش کیا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان جیسا مترجم ملا ۔ میں ان کی محبت اور محنت کا صلہ نہیں دے سکتا‘ ان کا خیال ہے کہ میں دے سکتا ہوں۔
اس طرح برادرم سلیم منصور خالد صاحب نے تدوین کا مشکل کام سرانجام دیا۔ بلاشبہ مسودے کی تشکیل نو ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ میرے لیے ان کا تعاون اس لیے بھی اہم ہے کہ باوجود اپنی تمام تر مصروفیات کے انہوں نیو قت نکالا اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ سچی بات ہے بغیر اخلاص اور رفاقت کے ایسے کام نہیں ہوتے۔
یہ کتاب میں اپنی والدہ محترمہ کے نام سے مسنوب کرنا چاہتا ہوں جو میری کوتاہیوں او رکمزوریوں کے مجھے اپنی دعائوں میں ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post سیکولر ازم مباحث اور مغالطے-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%b3%db%8c%da%a9%d9%88%d9%84%d8%b1-%d8%a7%d8%b2%d9%85-%d9%85%d8%a8%d8%a7%d8%ad%d8%ab-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%ba%d8%a7%d9%84%d8%b7%db%92-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad/feed/ 0 10924
اسلامی معاشرے میں یتیم کا مقام-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d8%b4%d8%b1%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%db%8c%d8%aa%db%8c%d9%85-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d9%82%d8%a7%d9%85-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2/ https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d8%b4%d8%b1%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%db%8c%d8%aa%db%8c%d9%85-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d9%82%d8%a7%d9%85-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2/#respond Wed, 13 Nov 2024 09:52:36 +0000 https://manshurat.pk/?p=10921 اسلامی شریعت نے یتیم کی کفالت کے سلسلے میں بہت سی ہدایات دی ہیں جن پر مسلم سماج میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اس زیرنظر کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور ان ہدایات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ مختصر کتاب اس قابل ہے کہ اس […]

The post اسلامی معاشرے میں یتیم کا مقام-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
اسلامی شریعت نے یتیم کی کفالت کے سلسلے میں بہت سی ہدایات دی ہیں جن پر مسلم سماج میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اس زیرنظر کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور ان ہدایات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ مختصر کتاب اس قابل ہے کہ اس کو تمام مسلمان ایک دفعہ ضرور پڑھیں اور ان ہدایات پر عمل کریں۔ ابتدائیہ ہمارے بھائی پروفیسر مسلم سجادؒ صاحب کے قلم سے ہے:
’’کسی بھی انسانی معاشرے میں یتیموں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، لیکن مسلمان تو یتیموں سے خصوصی تعلق محسوس کرتے ہیں، اس لیے کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے۔ پھر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے بارے میں خصوصی ہدایات دیں اور یتیموں سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے غیر معمولی اجر کے وعدے کیے اور اپنے خصوصی قرب کی بشارت دی۔
اس کتاب میں یتیموں کے حوالے سے قرآن پاک کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بڑے اچھے انداز میں ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہر حدیث کا حوالہ اور سند دی گئی ہے، اور یوں بیان مستند ہے۔
آخری باب بہت دلچسپ ہے۔ مصنف نے اُن بچوں اور بچیوں کو بھی یتیم قرار دیا ہے جن کے والد اپنے فرائض ادا نہیں کرتے اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج کل ایسے یتیم بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔
ہمارے لٹریچر میں یتیموں کا ذکر تو ہے لیکن اس حوالے سے اس نوعیت کی جامع تحریر جیسی یہ کتاب ہے، نہیں ملتی۔ وہ ادارے جو یتیموں کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، معاشرے میں یتیموں کے بارے میں شعور پیدا کرنے میں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
جناب گل زادہ شیرپائو نے بڑی توجہ سے اس مجموعے کو عربی سے اردو میں منتقل کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘
کتاب کے مترجم جناب گل زادہ شیرپائو تحریر فرماتے ہیں:
’’زیرنظر کتاب میں شیخ محمد مجاہد طبل اور جناب حذیفہ ابراہیم نے ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس سے بہت سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ یہ لوگوں کو اس سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد دلاتی ہے جسے لوگ بھلا بیٹھے ہیں، حالانکہ یہ سنتیں ان کی فلاح کا ذریعہ ہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ یتیم کون ہے؟ یتیموں کی کفالت کی فضیلت کیا ہے؟ اور ان کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟ ایک فلاحی معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ایک اسلامی معاشرے میں یتیم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ ان امور پر قرآن و سنت سے دلائل دیے گئے ہیں اور بعض مثالی مائوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
یہ کتاب تقریباً تین سال پہلے برادرِ محترم مولانا شاہ ولی اللہ کے ذریعے موصول ہوئی تھی، جو شیخ ملتون ٹائون، مردان میں ’’الاصلاح سینٹر‘‘ کے نام سے یتیموں کے ایک اچھے ادارے کے روح رواں ہیں اور سینکڑوں یتیم بچوں کی کفالت کی بھاری ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ اُس وقت تو کتاب کے چند صفحات کا ترجمہ درکار تھا، جسے وہ اپنے سالنامہ مجلہ ’’الاصلاح‘‘ میں شامل کرنا چاہتے تھے، مگر ساتھ ہی ان کی خواہش تھی کہ پوری کتاب کا ترجمہ بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ اب یہ ترجمہ اصل کتاب کی ترتیب میں کچھ ترامیم کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
دعا ہے کہ یہ کتاب معاشرے کے اس بے بس طبقے کی بھلائی کا ذریعہ بنے اور اللہ تعالیٰ اسے مؤلف، مترجم اور ناشر کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین!‘‘
اس کے مضامین درج ذیل ہیں:
قرآن اور یتیم کی کفالت
نفسیاتی تربیت، نگرانی و کفالت، نفسیاتی تربیت کے تقاضے، معاشی تحفظ، یتیم کے مال میں تجارت اور زکوٰۃ ، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدلو!، یتیم کے معاملے میں مزید اہتمام، رخصت اور آسانی، یتیم کا مال کھانے کا انجام، منکرینِ آخرت کی صفت، یتیم لڑکی کا حق۔
احادیث اور یتیم کی کفالت،بہترین گھر، یتیموں پر شفقت اور رحم، یتیم کی محتاجی اور شرعی نقطۂ نظر، اسلامی معاشرے کی روایت، اسلامی معاشرہ اور باہمی تکافل، خلافتِ عمرؓ کا ایک نمونہ، یتیم کی تعلیم و تربیت، اپنے بچے کا مستقبل محفوظ کریں، یتیم شریعت اور قانون میں، عدالت کے سامنے حلیہ سازی، شریعت کا حل، ایک بری عادت، قانونِ حسبہ، خیانت اور جعل سازی، یتیم کے مال سے تجارت، وصیت کے لیے نااہلی، یتیم کے ساتھ سلوک کے منفی پہلو، متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بنالینا، اسلام میں متبنیٰ کا حکم، خاندانی فخر و غرور کا اظہار۔
مثالی مائیں
حضرت نسیبہ (ام عمارہ) بنتِ کعبؓ، حضرت تُماضِر (خنساؓ) بنتِ الحارث، ایک ماں کی اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر نصیحت، یتیم کی کفالت کا زیادہ مستحق کون!، والدین کی موجودگی میں یتیمی، نوجوانوں کی سرکشی کے اسباب، باہمی ربط کی کمی، والدین کا نامناسب رویہ، بچوں کی غلط تربیت، ذرائع ابلاغ، دین سے دوری، خاندان کا شیرازہ بکھرنا۔
کتاب بہت خوبصورت طبع کی گئی۔ نہایت حسین وجمیل سرورق سے مزین ہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post اسلامی معاشرے میں یتیم کا مقام-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d8%b4%d8%b1%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%db%8c%d8%aa%db%8c%d9%85-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d9%82%d8%a7%d9%85-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2/feed/ 0 10921
عمران لنگھیاں-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%84%d9%86%da%af%da%be%db%8c%d8%a7%da%ba-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/ https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%84%d9%86%da%af%da%be%db%8c%d8%a7%da%ba-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/#respond Wed, 13 Nov 2024 09:32:48 +0000 https://manshurat.pk/?p=10918 عمران لنگھیاں (ناول) یہ خوبصورت ناول محترمہ جبین چیمہ کی تخلیق ہے۔ ادب یہی ہے کہ اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کو خوبصورت زبان میں پیش کیا جائے، جس کا مجموعہ یہ کتاب ہے۔ جناب سلیم منصور خالد تحریر کرتے ہیں: ’’زندگی لمحوں کی آمد کا نام ہے۔ جب خالقِ کائنات کے حکم سے یہ […]

The post عمران لنگھیاں-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
عمران لنگھیاں (ناول)

یہ خوبصورت ناول محترمہ جبین چیمہ کی تخلیق ہے۔ ادب یہی ہے کہ اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کو خوبصورت زبان میں پیش کیا جائے، جس کا مجموعہ یہ کتاب ہے۔ جناب سلیم منصور خالد تحریر کرتے ہیں:

’’زندگی لمحوں کی آمد کا نام ہے۔

جب خالقِ کائنات کے حکم سے یہ لمحاتی سفر تمام ہوگا تو زندگی کا پہیہ رک جائے گا اور وہی لمحہ قیامت کا لمحہ ہوگا۔ انسان کے لیے اِس زندگی میں اختیار کی نعمت اور انتخاب کی آزمائش بھی خالقِ کائنات کی عطا ہے، یعنی ہماری زندگی اسی اختٹیار و انتخاب کی کشمکش کا دوسرا نام ہے۔

عمراں لنگھیاں بظاہر ایک ساہ سی کہانی پر مبنی ناول ہے، لیکن فی الحقیقت یہ ایسی کہانی ہے، جس میں کئی کہانیاں اپنے انجام کی شاہراہ پر رواں دکھائی دیتی ہیں۔

یہ ناول ہمارے معاشرے کے تضادات کو آشکارا کرتا ہے اور ان ٹوٹتی پھوٹتی حقیقتوں کو بے نقاب کرتا ہے، جن میں ہم بے سمجھی میں، حماقتوں کی مدہوشی میں بطور تماشائی، بطور گونگے گواہ یا پھر بطور فعال کردار اپنا حصہ ادا کررہے ہیں۔

ناول کی کہانی کا بہائو سادہ بیانی اور فطری شستگی میں قاری کو اپنے ساتھ یوں لیے چلتا ہے، جیسے ایک مہربان ماں اپنے بچے کو انگلی تھامے، زندگی کی تلخیوں سے بچانے کے لیے باوقار بے چینی کی علامت بن جائے۔اس ناول میں جس جگہ کوئی سبق آموز بات آئی ہے تو وہ کسی تکلف کے کندھے پر سوار ہوکر نہیں آئی، بلکہ ٹھیک اپنے مقام پر انتہائی شائستگی سے بقدرِ ضرورت ہی بیان ہوئی ہے۔ ایسی کیفیت کے لیے حالات میں ڈراما نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ حالات کی ٹھوکر سے خودبخود چنگاری نے روشنی پیدا کی ہے۔

یہ ناول، ہمارے نظامِ تعلیم کے موجودہ چلن، تربیت کے الٹے رویوں اور سماجی تعلقات میں در آنے والی بیماریوں کو ان کے حقیقی پس منظر میں بیان کرتا ہے۔ اس ناول کا یہ امتیاز ہے کہ اس کا مؤثر پلاٹ، ڈرامائی صورتوں میں کہانی کو یوں تھامے رکھتا ہے کہ قاری پہلے اندازہ لگانے سے قاصر رہتا ہے کہ کہانی کون سا رخ مڑے گی۔ ناول کے کردار کی مناسبت سے، مکالموں کی موزونیت ٹھیک ٹھیک فطرت اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کی مختلف شیطانی دستاویزات کے زیراثر پیدا ہونے والی بے ہودہ اور باغیانہ ترغیب کا زہر، ’زندگی میری ہے‘ کے پُرفریب نعرے میں ڈھل کر، خاص طور پر نوعمر لڑکیوں کی زندگیوں کو چاٹ رہا ہے۔ اس ناول کے مطالعے سے یہ بات ذہن نشین ہوتی ہے کہ ’زندگی میری نہیں ہے‘ بلکہ زندگی زندوں کے ساتھ ہے اور وہ بھی قدردانوں کے ساتھ ، نہ کہ مفاد اور ہوس کے خونخوار جبڑوں میں تڑپنے کا نام۔

ناول نگار نے بچوں کو فلمی اور افسانوی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے دلوں میں اس سچائی کو اتارا اور مؤثر انداز سے ذہن نشین کیا ہے کہ آپ کے لیے، آپ کے حقیقی رشتوں کا کیا مقام ہے؟ کسی کی گمراہی اور جھوٹے نگوں کی چمک میں اندھی راہوں پر دوڑنا، ان بے لوث رشتوں پر کون سی قیامتیں ڈھاتا ہے، اور خود فرد کو کن دوزخوں سے گزارتا ہے؟ خصوصاً آج کا سوشل میڈیا اور موبائل فون کن کن عذابوں کو لمحے بھر میں آپ کے سامنے لاکھڑا کرسکتا ہے۔‘‘

کتاب خوبصورت، سہل و سیلس اردو زبان میں ہے جس کو منشورات نے اپنے روایتی اسلوب میں طبع اور شائع کیا ہے۔ ناول کا شروع مندرجہ ذیل تحریر سے ہوتا ہے:

’’وہ کہیں بہت دور سے آئی تھی۔

صدیوں کی تھکن اور گہری نقاہت اس کے چہرے سے ظاہر ہورہی تھی۔

بس سے اُترتے ہی گویا وہ ایک نئے جہان میں پہنچ گئی۔ اردگرد کے مانوس منظر کو اُس نے بہت حیرت اور افسوس سے دیکھا۔ اُسے یوں لگا جیسے اُس کے قدموں تلے آئی ہوئی مٹی بھی کراہ رہی ہو۔

’’آہ، تم کہاں چلی گئی تھیں، ہمیں چھوڑ کر‘‘ یہ خیال اس کی سماعت سے ٹکرایا۔

یہ جون کی ایک تپتی دوپہر تھی اور سورج سوا نیزے پر تھا۔ مگر وہ جانے کس جہان میں پہنچی ہوئی تھی کہ اُسے گرمی، سردی، دھوپ اور چھائوں کسی چیز کا احساس ہی نہیں ہورہا تھا۔ اردگرد کا منظر کافی بدل چکا تھا مگر دور دور تک نظر آتے کھیت اور نہر کے کنارے کنارے اُگے ہوئے درخت بالکل ویسے ہی دکھائی دے رہے تھے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ان سارے مناظر کی ایک ایک علامت سے لپٹ لپٹ کر روئے۔ اس کے اندر کتنی تشنگی تھی، کیسی پیاس تھی؟ کسی اپنے کی جھلک اور ہاتھوں کے لمس کو کتنا ترسی ہوئی تھی۔

اُس کے سر پر جون کی دوپہر کا سورج آگ برسا رہا تھا، مگر سامنے کا مانوس منظر اندر کی آگ کو ٹھنڈا کررہا تھا۔ ایسی آگ جس میں وہ لمحہ لمحہ جلی تھی۔ کیا دوزخ کی آگ اُس آگ سے بھی بڑھ کر ہوگی جو انسان کے اپنے اندر دہکتی ہے اور اسے لمحہ بہ لمحہ جلاتی ہے؟‘‘
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post عمران لنگھیاں-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/13/%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%84%d9%86%da%af%da%be%db%8c%d8%a7%da%ba-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/feed/ 0 10918