حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/حیات-خرم-ماہ-وسال،-ایک-نظر-میں/ Manshurat Fri, 20 Dec 2024 12:13:21 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.8.3 https://manshurat.pk/wp-content/uploads/2024/01/cropped-Man_Logo_New-1-32x32.jpg حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/حیات-خرم-ماہ-وسال،-ایک-نظر-میں/ 32 32 228176289 حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں-سلیم منصور خالد https://manshurat.pk/2024/10/31/10884/ https://manshurat.pk/2024/10/31/10884/#respond Thu, 31 Oct 2024 10:14:10 +0000 https://manshurat.pk/?p=10884 حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں سلیم منصور خالد ۱۹۳۲ وسط ہند کی مشہور ریاست بھوپال )رائے سین) میں ۳ نومبر کو پیدا ہوئے۔ خاندان کا تعلق سہارن پور اور مظفر نگر سے ہے۔ ان کے والد محترم منظور علی مراد)ف:۱۹۶۳( سرگودھا، پنجاپ میں پیدا ہوئے، انجینرنگ اسکول، رسول)گجرات، پنجاب( سے سول انجینئرنگ کا […]

The post حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں-سلیم منصور خالد appeared first on Manshurat.

]]>
حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں
سلیم منصور خالد
۱۹۳۲ وسط ہند کی مشہور ریاست بھوپال )رائے سین) میں ۳ نومبر کو پیدا ہوئے۔ خاندان کا تعلق سہارن پور اور مظفر نگر سے ہے۔ ان کے والد محترم منظور علی مراد)ف:۱۹۶۳( سرگودھا، پنجاپ میں پیدا ہوئے، انجینرنگ اسکول، رسول)گجرات، پنجاب( سے سول انجینئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔
۱۹۳۷ والد محترم کا تبادلہ گوہر گنج)بھوپال( میں ہو گیا، تو وہاں ۱۹۴۱ تک قیام پذیر رہے۔
• گھر پر والدہ محترمہ سے قرآن پاک اُردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا آغاز ہوا۔
۱۹۴۳ اسکول کی باقاعدہ داخلہ چھٹی کلاس میں لیا۔ اس سے پیش تر تعلیم گھر پرہی حاصل کی۔
۱۹۴۵ آٹھویں میں تھے کہ بچوں کے رسائل پڑھنے کے دوران “طلسم ہو شربا” جیسی بڑی اُردو کلاسیکی داستان پڑھی۔
۱۹۴۶ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، بھوپال سے تعلق قائم ہوا۔ ان دنوں جماعت نہم کے طالب علم تھے۔ لیکن اگلے برس ایک اجلاس میں انھوں نے فیڈریشن کے انچاج استاد سے چند سوال کیے جس پر انھیں فیڈریشن سے الگ کر دیا گیا۔
۱۹۴۷ میٹرک کا امتحان پاس کیا، اور حمیدیہ کالج بھوپال، انٹر سائنس سال اول میں داخلہ لے لیا اور سالانہ امتحان میں اول آئے۔
• نومبر / دسمبر، کالج کے ایک دوست حسن الزماں اختر کی دعوت پر، جماعت اسلامی بھوپال کے اجتماع عام میں شرکت کی۔ بھوپال میں امیر جماعت اسلامی سید ظہیر الحسن تھے۔ یہی اجتماع تحریک سے پہلا باقاعدہ رابطہ تھا۔ یہیں پر انعام الرحمٰن خان سے روابط بڑھے۔
۱۹۴۸ مولانا سید سلیمان ندوی، بھوپال آ کر رہے۔ ان کی صحبتوں سے فیض پایا۔ اسی دوران میں حدیث میں مولانا مودودی کے استاد مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی سے ہمسائیگی کا رشتہ قائم ہوا۔
• اکتوبر کی آخری تاریخوں میں، نقل مکانی کی غرض سے اہل خانہ کے ساتھ پہلے دہلی، اور پھر وہاں سے لاہور پہنچے۔ لاہور میں تین چار روز تک محلہ کرشن نگر)اسلام پورہ( میں قیام کیا، اور پھر ۳ نومبر کو کراچی آگئے۔
• نومبر، انٹر سائنس سال دوم کے لیے ڈی جی کالج کراچی میں داخلہ لیا۔
۱۹۴۹ فروری، جماعت اسلامی، کراچی کے دفتر پہنچے، تاکہ مقامی نظم سے باقاعدہ ربط و تعلق قائم ہو۔ چودھری غلام محمد صاحب نے اگلے روز آنے کا کہا، اور ظفر اسحاق انصاری صاحب کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق جوڑنے کا رستہ سمجھایا۔
• چند ہفتوں بعد اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے رکن بن گئے۔
• انٹر پاس کرنے کے بعد این ای ڈی انجینئرنگ کالج، کراچی کے شعبہ سول انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔
• سال کے آخر میں ، ناظم کراچی، ضمیر احمد)پروفیسر خورشید احمد کے بڑے بھائی( ، پاکستان بحریہ میں کمیشن ملنے کے باعث لندن چلے گئے، تو خرم صاجب کراچی جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے۔
۱۹۵۰ جنوری، اخوان المسلمون کے نوجوان رہنما سعید رمضان) ف: اگست ۹۵ء( سے تعارف حاصل ہوا، جو بعد میں گرم جوش تعلقات میں تبدیل ہو گیا۔
جولائی، مولانا مودودیؒ رہائی کے بعد پہلی مرتبہ کراچی تشریف لائے۔ یہیں پر مولانا محترم سے پہلے مرتبہ آپ کی ملاقات ہوئی، اور جمعیت کی طرف سے استقبالیہ دیا۔
• جمعیت کے تیسرے سالانہ اجتماع)۲۵-۲۶ نومبر( لاہور میں شرکت۔
• دسمبر، نظامت کراچی جمعیت سے سبک دوش ہو گئے اور کراچی کے ناظم خورشید احمد منتخب ہوئے۔
۱۹۵۱ ایس ایم کالج کے ہال میں، مجدین امت کے خدمات پر عام طلبہ کے سامنے ۶ مفصل لیکچر دیے) جو بعد میں مختصر کر کے فروری ۵۶ میں “سیرت آئمہ اربعہ” کے نام سے شائع ہوئے(۔
• ۴ نومبر کو جمعیت کے چوتھے سالانہ اجتماع )لاہور( میں، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے تیسرے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔
۱۹۵۲ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی “دستور ساز کمیٹی” کے سربراہ مقرر ہوئے، اور دستور مدون کیا۔
• ایک مرحلہ وار مقابلے کے بعد، این ای ڈی کالج کے بہترین مقرر قرار پائے۔
۱۹۵۳ این ای ڈی انجینئرنگ کالج سے بڑے اعزاز کے ساتھ اول پوزیشن میں سول انجینئرنگ کا امتحان(BE) پاس کیا۔
۱۹۵۴ جنوری میں گیمن انجینئرنگ کمپنی میں بطور انجینئر پہلی ملازمت حاصل کی۔
• ستمبر، گیمن کمپنی می ملازمت چھوڑ کر “کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کارپوریشن میں ملازم ہو گئے۔
• عراق میں اخوان المسلمون کے قائد استاد محمد محمود صواف سے کراچی میں ملاقات ہوئی۔
۱۹۵۵ اگست میں کے ای ایس سی کی ملازمت ترک کر دی۔ کیونکہ این ای ڈی انجینئرنگ کالج میں ایک سابقہ درخواست کی بناء پر حکومت نے بطور لیکچرر تعینات کیا۔
اکتوبر میں بھوپال گئے۔
• دسمبر، پاکستان نیوی کے مرکز منوڑہ، بہادر اسٹبلشمنٹ کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کی ذمہ داری قبول کی۔
۱۹۵۶ فروری، آپ کی پہلی کتاب “سیرت آئمہ اربعہ” اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے شائع کی۔
• ۸ جون ، شادی ہوئی، تقریب نکاح بھوپال میں منعقد ہوئی۔ ان کی اہلیہ پاک و ہند کی مشہور دینی شخصیت نواب صدیق حسن کی اولاد میں سے ہیں۔
• اسی زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کی داخلی تربیتی نظام پر ایک رپورٹ بہ عنوان “تحریک اسلامی میں کارکنوں کے باہمی تعلقات” لکھی۔ خرم صاحب کے بقول “میں نے یہ رپورٹ اشاعت کے لیے نہیں لکھی تھی۔ لیکن جب اس کی کاپی جمعیت کے ناظم اعلیٰ حسین خان صاحب نے مولانا عبد الغفار حسن کو پڑھنے کے لیے دی، تو انھوں نے اسے بہت پسند فرمایا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد اچانک ایک روز دیکھا کہ اس کی پہلی قسط جنوری ۱۹۵۷ کے “ترجمان القرآن” میں شائع ہوئی۔
۱۹۵۷ ۸ جون، اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کی تربیت گاہ میں شرکت کے لیے خورشید احمد صاحب کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچے۔ ۲۳ جون کو تربیت گاہ ختم ہوئی، تو سلہٹ ، باری سال، چٹاگانک اور ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ یکم جولائی کو واپس کراچی آئے۔
• ستمبر ، یونی ورسٹی آف مینی سوٹا مینا پولس سٹی ) ریاست مینی سوٹا، امریکہ( میں میرٹ وظیفہ ملا۔ اسی بنیاد پر انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم(MS) کے حصول کے لیے امریکہ گئے۔ سفر کے دوران پہلے لندن، پھر مانٹریال)کینیڈا( اور اس کے بعد مینا پولس پہنچے۔
۱۹۵۸ مینی سوٹا یونی ورسٹی )مینا پولس( میں عیسائی مشنریوں سے اسلام اور عیسائیت پر مکالمات کیے۔ وہاں کے گرجا گھروں اور سماجی تقاریب میں شرکت کی، اسلام اور پاکستان کے بارے میں تقاریر کیں۔ یہیں پر پہلی مرتبہ انگریزی میں تقریر کی مشق ہوئی۔
• جنوری/ “تحریک اسلامی: کارکنوں کے باہمی تعلقات ” پہلی بار کتابی صورت میں ادارہ چراغ راہ، کراچی نے شائع کی۔
• “اسلامک کلچرل سوسائٹی” اور “پاکستان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن” میں فعال کردار ادا کیا۔ ان کی رہائش گاہ کو اہل وطن نے “پاکستان ہاؤس” کا نام دیا۔
• ایم ایس، سول انجینئرنگ A+ کی امتیازی حیثیت اور اول پوزیشن میں پاس کیا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ یہ امتحان نو ماہ کی کم از کم مدت میں پاس کیا۔
• آٹھ، نو ماہ کے لیے، یونیورسٹی ہی میں ایک عارضی تدریسی ملازمت اختیار کی، تاکہ واپسی کا کرایہ ہو سکے۔
۱۹۵۹ مارچ، تعلیم مکمل کرکے وطن واپسی کا سفر اختیار کیا، نیویارک سے لندن تک “کوئین الزبتھ” بحری جہاز سے سفر کیا۔
• اپریل ، لندن سے کراچی پہنچے۔
• خواجہ عظیم الدین صاحب نے “ایسوسی اینڈ کنسلٹنٹ انجینئرز” (ACE) کے نام سے، پانی ، بجلی اورتعمیرات کے بڑَ ے منصوبوں کے لیے ایک مشاورتی کمپنی قائم کی۔ امریکہ سے واپس آنے کے چند ہفتوں بعد اسی کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔
• زیلن کافی ہاؤس، صدر ، کراچی کے Saturday Club میں ، علمی مکالمات و مباحث کی ہفت روزہ نشتوں میں شرکت کی۔ ان محفلوں میں تحریک کے زندہ مسائل پر بحث کو آگے بڑھایا۔
• پیر الہٰی بخش کالونی کی بلدیاتی کونسل کے الیکشن میں بطور ممبر منتخب ہوئے۔
• دریائے برہما پت پر بند بنانے کے لیے رپورٹ تیار کی۔ کمپنی نے مشرقی پاکستان بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے جانے کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس طرح کمپنی میں ترقی پانے کے بعد ڈھاکہ جانے کے لیے منظوری ہوئی۔
۱۹۶۰ جنوری میں اہل خانہ سمیت ڈھاکہ پہنچے۔
• مارشل لا کے تحت جماعت اسلامی پر پابندی تھی، اس لیے مقامی قیادت سے سماجی سطح پر تعلق قائم کیا۔
۱۹۶۱ کمپنی، ایک امریکی انجینئرنگ کمپنی کے اسشتراک سے دریائے برہما پتر پر کام کر رہی تھی۔ دونوں کمپنیوں نے انجینئرنگ رپورٹ کی تیار کے لیے بطور پراجیکٹ انجینئر، کولوریڈواسٹیٹ امریکہ کے شہر ڈینور(Denver) میں جانے کی ہدایت کی۔ روانگی کا سفر براستہ کلکتہ، بنکاک، ہانگ کانگ، ٹوکیو اور سان فرانسکو کیا۔ ان مقامات پر ایک دو روز رکنے کے بعد منزل پر پہنچے۔
• ڈینور(امریکہ) میں رپورٹ کی تکمیل کے بعد ، واپسی کے سفرمیں ، لندن رکے، احباب سے ملاقاتیں کیں، پھر جینوا(سوئزرلینڈ) گئے وہاں پر سعید رمضان سے ملے۔ اس کے بعد استنبول(ترکی) آئے۔ وہاں سے بیروت پہنچے، جہاں عرب دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ وہاں سے دمشق(شام) آئے، وہاں پر ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دمشق سے جدہ کے راستے مکہ مکرمہ پہنچ کر پہلا عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یہاں پر تینوں دن مسجد الحرام ہی میں قیام پذیر رہے۔
۱۹۶۲ جون میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد جماعت کی سرگرمیوں میں فعال حصہ لینا شروع کیا۔
• جماعت اسلامی کے رکن بنے۔
۱۹۶۳ فروری، ڈھاکہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔
• انگریزی اور بنگالی میں بلیٹن جاری کیا۔ جس کا نام SEARCH LIGHT تھا۔ اس بلیٹن کے متعدد شمارے، خود ہی مرتب کیے۔
ایک خاص قسم کا دمہ )استھما( لاحق ہو گیا۔ جس میں رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ کئی راتیں کھڑکی کے سامنے گزارنا پڑیں۔
• چند یادگار تحریریں رقم کیں، جن میں:
۱۔ میں نے جمعیت سے کیا پایا؟( برائے جمعیت)
۲۔ عربک اسلامک یونی ورسٹی ڈھاکہ کا منصوبہ (انگریزی)
۳۔( تحریک اسلامی کا مستقبل )” چراغ راہ میں شامل ہے”
• اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈھاکہ شاخ کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔
• جمعیت طلبہ عربیہ کی تنظیم اور نظم کو تحریک اسلامی کے زیر اثر لانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تنظیم بعد میں تحریک کے لیے بڑا قیمتی سر چشمہ ثابت ہوئی۔
مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی “شعبہ پارلیمانی امور” کے سربراہ مقرر ہوئے، اور جماعت کے منتخب ارکان اسمبلی کی پارلیمانی تربیت و رہنمائی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دینا شروع کیا۔
• نومبر، جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع میں شرکت کی۔ اسی اجلاس کے دوران پولیس کی سرپرسی میں ٹنڈوں نے گولیاں چلائیں۔ اور اجتماع گاہ کے شامیانے گرا دئیے۔ جس میں جماعت کے ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو گئے۔ لیکن اجتماع کو درہم برہم نہ کیا جا سکا۔
• جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔
۱۹۶۴ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر کے ، حکومت نے ۶ جنوری کو فجر کے وقت، انھیں گھر سے گرفتار کر لیا۔
• تین ماہ بعد ۵ اپریل کی شام رہا ہوئے۔
• جولائی، صدر ایوب خان کی آمریت کے خلاف “متحدہ حزب اختلاف” (COP) کے اجلاسوں میں )کالعدم( جماعت اسلامی کی نمائندگی کی۔
• شیخ مجیب الرحمٰن کی تجویز پرCOP کے مرکزی خزانچی منتخب ہوئے، لیکن یہ ذمہ داری ادا کرنے سے معذرت پیش کر دی۔
مزدوروں میں کام کا آغاز کیا۔
• صدر ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم چلانے کے لیے “متحدہ حزب اختلاف” کی “مشرقی پاکستان انتخابی کمیٹی” کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
۱۹۶۵ “تفہیم القرآن” اور مولانا مودودی کی دیگر تمام کتب کے بنگلہ ترجمے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے لیے مردان کار کا انتخاب اور وسائل فراہم کیے۔ اگلے چار برسوں میں بیشتر کام مکمل ہو گیا۔ “تفہیم” کے ترجمے کے لیے ، مولانا عبدالرحیم صاحب پر سے صوبائی امارت ( مشرقی پاکستان) کی ذمہ داری بدلنے کے لیے مرکز اور صوبے میں افہام و تفہیم سے کام کیا۔
• زمانہ قید میں، اہلیہ اور بچوں کے نام لکھے ہوئے خطوط پر مشتمل کتاب “لمعات زندان” شائع ہوئی، جسے ان کی اہلیہ محترمہ لمعت النور نے مرتب کیا۔
۱۹۶۶ اگست، کمپنی کی مشرقی پاکستان شاخ کے چیف انجینئر اور جنرل مینجر مقرر ہوئے۔
• ۳ نومبر کو پہلا ہارٹ ہوا۔ اس وقت عمر ۳۴ برس تھی، دو ماہ کے لیے صاحب فراش رہے۔ “کارکنوں کے باہمی تعلقات” کا بنگلہ ترجمہ ہوا۔
۱۹۶۷ جنوری کے دوسرے ہفتے تک بستر پر رہنے کے بعد جس روز اٹھے، اسی روز دوبارہ گر پڑے۔ مزید ڈھائی ماہ تک بستر پر ہی رہنا پڑا۔ یہیں سے جماعت کے کام کی نگرانی اور رہنمائی کا کام کرتے رہے۔
• اگست، ستمبر، جماعت کے صوبائی دفتر،کوثر ہاؤس میں، صوبائی اجلاس کے دوران دوبارہ “ہارٹ اٹیک” ہوا، لیکن یہ پہلے کی نسبت ہلکا تھا۔
• “پاکستان تحریک جمہوریت” (PDM) کے نام سے حزب اختلاف کی جماعتیں متحد ہوئیں، ان میں جماعت کی مستقل نمائندگی کے لیے چار رکنی نمائندوں میں ایک آپ تھے۔
۱۹۶۸ ادارہ معارف اسلامی، ڈھاکہ کی جانب سے بنگلہ ماہ نامہ “پرتھوی” جاری کیا۔( یہ رسالہ “ترجمان القرآن ” اور ” چراغ راہ” کی طرح دینی اور علمی مضامین پر مشتمل تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے وقت اس کی شاعت پانچ ہزار تھی اور آج کل ۳۵ ہزار ہے)۔
• پہلی مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ سفر حج کے اخراجات کی کفایت کے لیے ۱۹۵۹ء ہی سے اپنے اخراجات میں سے ماہانہ تھوڑے تھوڑے روپے اکٹھے کرتے رہے۔
• بنگلہ زبان میں روزنامہ جاری کرنے کے لیے جملہ انتظامات کے لیے پراجیکٹ انچارج مقرر ہوئے۔
۱۹۶۹ جنوری، متحدہ حزب اختلاف کی “جمہوری مجلس عمل” (DAC) میں جماعت کی نمائندگی کی۔
• عوامی جمہوریہ چین اور ہانگ کانگ کا سفر کیا۔ اس دوران کمیونسٹ پارٹی کے کام اور اثرات کا مطالعہ بھی کیا۔ بنیادی طور پر یہ سفر چھوٹے بیٹے اویس کے علاج کے لیے تھا۔
• جماعت نے منشور سازی کے لیے کمیٹی کارکن مقرر کیا۔
۱۹۷۰ بنگلہ میں تحریک اسلامی کا ترجمان روزنامہ جاری کرنے کے لیے ۱۹۶۸ سے جس کام کا آغاز کیا تھا، ۱۷ جنوری(بروز ہفتہ) کو روزنامہ “سنگرام” کے نام سے اس کی اشاعت شروع ہوئی، سقوط ڈھاکہ کے بعد چند برس اس کی اشاعت معطل رہی، تاہم اس وقت بنگلہ صحافت میں یہ ایک باوقار اور موثر روزنامہ ہے۔
• جماعت کی مصروفیات اور قومی حالات کی وجہ سے جنوری ہی میں کمپنی سے ایک سال کی طویل رخصت لے لی۔ مگر اس امر کی وضاحت کر دی کہ روزانہ دو گھنٹے ضرور کمپنی کے دفتر کو دیں گے۔
• مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کی انتخابی مہم کے ناظم اگچہ ماسٹر شفیق اللہ تھے، مگر وہ خود اپنے ضلع میں اسمبلی الیکشن کے لیے امیدوار بھی تھے۔ اس لیے عملی طور پر انھوں نے انتخابی مہم کی تنظیم، حکمت عملی اور مالیت کو جمع اور تقسیم کرنے کا پور ا کام خرم مراد صاحب کے سپرد کر دیا۔ دسمبر تک وہ اس کام میں پوری تند ہی سے لگے رہے۔
• اسی انتخابی مہم کے دوران بنگلہ تقریریں شروع کیں۔
۱۹۷۱ جنوری میں اہل خانہ کے ہمراہ کراچی چند رو ز قیام کے لیے آئے، تاکہ اپنی والدہ، بہنوں اور بھائیوں سے مل سکیں۔ یہاں پر بچوں کو چھوڑ کر خود فروری کے شروع میں ڈھاکہ واپس چلے گئے۔
• فروری، ڈھاکہ جماعت کی امارت سے خود ہی سبک دوش ہو گئے، تاکہ کوئی مقامی ساتھی قیادت کر سکے، اور یہ اس کی معاونت کریں۔ (غلام سرور امیر ڈھاکہ منتخب ہوئے)
• مارچ، فوجی ایکشن کے دوران شیخ مجیب کی گرفتاری کے بعد شیخ صاحب کی اہلیہ اور بچوں کو اپنے گھر دھان منڈی میں آ کر پناہ لینے کی دعوت دی۔ (اس مقصد کے لیے انھوں نے خود پیغام بھیجا تھا۔ اپریل مِں اہل خانہ کو واپس ڈھاکہ بلا لیا)۔
• مئی، دس روز فوجی تربیت حا صل کی۔
• ستمبر / اکتوبر، برطانیہ میں مسلم طلبہ کی تنظیم POSIS کی دعوت پر ان کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے للیے، لند گئے، اور دس بارہ روز بعد واپس ڈھاکہ آ گئے۔
• اکتوبر میں یہ فیصلہ کر لیا کہ اب کراچی منتقل ہو جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے آخر کار ۲۶ نومبر کو اہل خانہ کو کراچی بھیج دیا، اور خود اپنی نشست ۵ دسمبر کی محفوظ کرا لی۔ ۳ دسمبر کو دونوں ملکوں کے درمیان کھلی جنگ چھڑ گئی، اس طرح یہ روانگی منسوخ ہو گئی۔
• سقوط ڈھاکہ کے بعد دسمبر کی آخری تاریخوں میں جنگی قیدی بنا لیے گئے ( اور ۲۰ جنوری تک ڈھاکہ کیمپ گارڈ نمبر ۳ قید رہے)۔ اس وقتACE کے مشرقی پاکستان میں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے۔
۱۹۷۲ جنوری، بھارت نے جنگی قیدی کے طور پر اپنے کیمپوں میں منتقل کر دیا۔ آپ بطور جنگی قیدی ” نمبر ۳۶۵ سویلین” محبوس ہوئے۔ کیمپ کا نمبر ۵۰ تھا۔
• جنگی قیدی کیمپ میں منتقل ہونے کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد، قیدی ساتھیوں کو قرآن ، ناظرہ اور ترجمہ قرآن پڑھانے کی کلاس لینے کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ کامیابی کے ساتھ رہائی تک جاری رہا۔
۱۹۷۳ ایک دن ملحق جنگی کیمپ میں ایک پاکستانی قیدی نے بھارتی محافظ کے ہاتھ سے رائفل چھین کر، معائنہ پر آئے ہوئے بھارتی بریگیڈیر پر تان لی۔ جس پر چاروں طرف سے واچ ٹاوروں سے قیدیوں پر فائرنگ شروع ہو گئی، اس فائرنگ سے چند پاکستانی جواب شہید ہو گئے، خرم صاحب کے بقول “ہم لوگ زمین پر لیٹے رہے اور گولیاں اوپر سے گزرتی رہیں”۔
• جون، بہ عارضہ سرطان، والدہ محترمہ انتقال ہو گیا۔ جو خرم صاحب کے لیے ماں، استاد، مربی اور سب سے بڑھ کر قرآن کی معلمہ تھیں۔
• دل کی تکلیف عود کر آئی، تقریبا ً تین ماہ ہسپتال رہے۔
• انھوں نے ایک کتاب کا منصوبہ پیش نظر رکھ کر خطوط لکھنے شروع کیے۔ جس میں ایک نوجوان کو اسلامی بنیادی اقدار اور مقاصد سے قریب لانا مطلوب تھا۔ لیکن مخاطب اپنے بچے تھے۔ جنگی قیدی کیمپ میں روز روز کی تلاشیوں اور ذاتی کاغذات کی بار بار ضبطی، احتساب اور داروگیر کے خدشات کے پیش نظر یہ منصوبہ صرف سات خطوط تک ادھورا رہا۔
• ۱۷ دسمبر بھارت کی قید کے رہائی پا کر واہگہ کے راستے لاہور، پاکستان پہنچے۔ مولانا مودودی سے ملاقات کے بعد ۱۸ دسمبر کو کراچی پہنچے۔
۱۹۷۴ مارچ، جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع ارکان منصورہ، میں خطاب کیا۔
• ACE ) انجینئرنگ مشاورتی کمپنی( نے کالا باغ ڈیم پر کام کی پیش کش کی، لیکن آپ نے کمپنی کے غیر ملکی منصوبوں پر کام کو ترجیح دی۔ جس پر کمپنی نے انھیں اپنے بعض غیر ملکی منصوبوں کی ذمہ داری سونپی۔ جس کی وجہ سے انھیں پہلے تہران) ایران( تعینات کر دیا گیا۔ اس دوران انھیں متعدد بار، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی جانا پڑا۔
۱۹۷۵ “کارکنوں کے باہمی تعلقات” کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔
۱۹۷۶ کمپنی نے سعودی عرب تبادلہ کر دیا۔ ریاض میں کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اکثر منصوبوں کی تیاری اور ڈیزائننگ میں شریک رہے۔ اس دوران میں مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) کی توسیع کے منصوبے کی تکمیل کی، مطاف میں سنگ مر مر کا فرش بنانے اور چاہ زم زم کے علاقے میں ترمیم و تبدیلی کے منصوبے شروع کیے۔
باہمی تعلقات کا پشتو ترجمہ ہوا۔
۱۹۷۷ کمپنی سے طویل رخصت لے کر برطانیہ منتقل ہو گئے۔ جہاں پر “دی اسلامک فاؤنڈیشن” لیسٹرل جیسے بلند پایہ دینی، علمی اور اشاعتی ادارے سے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر وابستگی اختیار کیا۔
۱۹۷۸ پروفیسر خورشید احمد صاحب کی پاکستان منتقلی کے بعد “دی اسلامک فاؤنڈیشن” کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے اور ۱۹۸۶ء تک اس ذمہ داری کو ادا کیا۔ اس دوران “فاؤنڈیشن” کے کام کو وسعت دی۔ سمعی و بصری منصوبے، نوجوانوں میں کام کے منصوبے اور بین المذاہب شعبے کا آغاز کیا۔ اسٹاف کی تعداد چار سے بڑھ کر سترہ ہو گئی۔ کتب کے ترجمہ، تالیف اور اشاعت کا کام میں وسعت پیدا کیا۔
۱۹۷۹ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ(ISNA) کی دعوت پر امریکہ کا طویل دورہ۔ اس دوران مغرب میں اسلام کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے لائحہ عمل پیش کیا۔
دسمبر، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان اور جماعت اسلامی کی مرکزی مجالس شوریٰ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے برطانیہ سے لاہور آئے۔
۱۹۸۰ اسلام اور اسلامی دنیاسے متعلق یورپ سے شائع ہونے والی کتب کے جائزہ و تقیح پر مبنی تبصروں کے لیے فاؤنڈیشن سے سہ ماہی مجلہ: Muslim World Book Review کا اجراء کیا۔ جس کے آپ مدیر تھے۔ اس مجلے کا پہلا شمارہ ۱۹۸۰ کے موسم خزاں میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر منظر احسن اور آصف حسین آپ کے شریک مدیر تھے۔
• جماعت اسلامی نے یورپ میں دیگر اسلامی تحریکوں اور تنظیموں سے رابطے کے لیے نگران مقرر کیا۔
۱۹۸۱ اپریل “احیائے اسلام اور معلم” ادارہ تعلیمی تحقیق لاہور نے شائع کیا۔
• Shariah: The Way to God
• Shariah: The Way of Justice.
۱۹۸۲ جنوری، لندن میں دل کا پہلا آپریشن ہوا۔
• فاؤنڈیشن کی طرف سے بچوں کے لیے کتب تیار کر کے شائع کیں:
• Love Your Brother, Love Your Neighbour
• Love Your God
• سمعی و بصری سطح پر Islam the Way of Peace کے تحت ایک سلائیڈ پروگرام اے حمید سے مل کر تیار کیا۔ جس میں ۳۴ سلائیڈیں اور کیسٹ اور وضاحتیں شامل ہیں۔
• فاؤنڈیشن سے محمد سلیم کیانی کے ہمراہ یہ کتب تیار کیں:
• Stories of the Caliphs
• The brave Boy.
۱۹۸۳ “اسلامی قیادت: سیرت رسول اللہ کے آئینہ میں “اسلامک پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی۔
• بچوں کے لیے یہ دو کتب شائع ہوئیں۔
• Love at Home
• The Kingdom of Justice.
۱۹۸۴ مولانا مودودی کی کتاب “تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں” کا انگریزی ترجمہ کیا، اور فاؤنڈیشن نے شائع کیا، جس کا عنوان یہ ہے:
• Islamic Movement: Dynamics of Values, Power and Change.
• برطانیہ میں پندرہ نوجوانوں کا منتخب کیا اور ان کے لیے ایک سال کا تربیتی پروگرام تتیب دیا۔ اس کلیدی گروپ کے شرکاء نے بعد ازاں برطانیہ میں تحریک کے کام میں ندرت اور وسعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
• بچوں کے لیے کہ کتب تیار کر کے شائع کیں:
• The Long Search: Story of Salman the Persia.
• The Desert Chief: Story of Thumama Ibn Uthal.
• A Great Friend of Children.
• رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی حیات طیبہ پر مبنی ایک ویڈیو کے لیے سکرپٹ لکھا اور تیار کرایا۔ کیسٹ کا نام ہے:
• The Life of the Prophet Muhammad.
• اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ، کی دعوت پر مرکزی کنونشن میں شرکت اور امریکہ کا دورہ۔
۱۹۸۵ مولانامودودی کی مشہور کتاب “خطبات” کا انگریزی ترجمہ کیا، اور فاؤنڈیشن سے شائع ہوا۔ کتاب کا نام:
• Let us Be Muslims
• قرآن پاک کےدرس و تدریس اور فہم و تدبر میں رہنمائی کے لیے کتاب شائع ہوئی۔
• Way to the Quran
• ۲۵ جولائی، لندن میں دوسرا آپریشن ہوا۔
• بچوں کے لیے یہ کتب شائع ہوئیں:
• The Persecutor comes Home: Story of Umar.
• The Longing Heart: Story of Abu Dhar.
• The Wise Poet.
• The Broken Idol and the Jewish Rabbi.
• مقالہ شائع ہوا:
• Sacrifice: The Making of a Muslim
• اکتوبر، بھارت سے قید کے دوران اہل خانہ کو جو خطوط لکھے، ان کا ایک انتخاب “جنگی قیدی کے خطوط” کے نام سے ادارہ مطبوعات طلبہ، لاہور نے شائع کیا۔
• جنوبی افریقہ، تحریک اسلامی کی دعوت پر دورہ کیا۔
۱۹۸۶ اسلامک فاؤنڈیشن نےیہ کتب شائع کیں:
• Dawah Among Non Muslims in the West.
• Muslim Youth in the West.
• مولانا مودودی کی کتاب “شہادت حق” کا ترجمہ کیا:
• Witness Unto Kankind
• انھی کی کتاب “اسلام کا نظام حیات” کا ترجمہ پروفیسر خورشید احمد کے ہمراہ کیا:
• Islamic Way of Life
• “چند تصویریں سیرتؐ کے البم سے”شائع ہوئی۔
• کتاب “انتخابی حکمت عملی ” شائع ہوئی۔
• برطانیہ سے لاہور پاکستان منتقل ہو گئے۔
۱۹۸۷ ڈھاکہ، بنگلہ دیش گئے۔
• اکتوبر، جماعت اسلامی، لاہور کے امیر منتخب ہوئے۔
• دسمبر، جماعت اسلامی پاکسان نے نائب امیر مقرر ہوئے۔
۱۹۸۸ محترم قاضی حسین احمد نے غیر ملکی دورے کے دوران قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوئے۔
۱۹۸۹ لاہور جماعت کی امارت سے سبک دوش ہوئے۔
• اپریل، قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوئے۔
• سندھی میں معیاری اور ارزاں تحریکی لٹریچر کی اشاعت و ترسیل کے لیے “مہران اکیڈمی، سکھر” قائم کرنے کے لیے عملی پیش رفت کی۔
۱۹۹۰ افرادی قوت کی تیاری اور عام طلبہ کی معیار ی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لیے “انسٹی ٹیوٹ آف لیڈ ر شپ اینڈ مینجمنٹ” (ILM) قائم کرنے میں فکری اور عملی مدد دی۔
• اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے ارکان کی خواہش پر ان کے مرکزی کنونشن میں شرکت کے لیے امریکہ گئے۔
• مئی اور پھر ستمبر میں قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوئے۔
۱۹۹۱ کتاب “مسائل و افکار” البد پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی۔
• مارچ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں تقریر کے دوران دل کا شدید دورہ پڑا۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹر شہر یار کے زیر علاج رہے۔
• اپریل، جون اور دسمبر میں قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوئے۔
• جولائی “ترجمان القرآن” کے مدیر مقرر ہوئے۔
۱۹۹۶ اکتوبر، قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوئے۔
۱۹۹۳ اگست، ستمبر، اسلاک سرکل آف نارتھ امریکہ(ICNA) کی دعوت پر امریکہ کے دورے پر گئے۔
• ارزاں قیمت پر لٹریچر کی فراہمی کے لیے ادارہ “منشورات” قائم کیا۔
• مارچ، جون، ستمبر میں قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوئے۔
۱۹۹۵ دل کی تکلیف میں شدت آ گئی، نومبر میں ہسپتال داخل ہوئے، جہاں تین ہفتے داخل رہے۔
• ملائیشا کا دورہ کیا۔
۱۹۹۶ جنوری ڈاکٹروں کےمشورے پر لیسٹر برطانیہ چلے آئے ، تاکہ علاج کروا کے واپس پاکستان جائیں۔
• احادیث نبویؐ کا انتخاب “صحبت نبویؐ میں” دل نشیں تشریح کے ساتھ شائع ہوا۔
• جولائی/ اگست، احباب کے پیہم اصرار پر ذاتی یاداشتیں ریکارڈ کیں۔ آخری کیسٹ) ۱۶ اور ۱۷ دسمبر کو ریکارڈ کیا( ۔ یہ یادیں ” لمحات” کے نام سے زیر طبع ہیں۔
• نومبر کے وسط میں طبیعت بگڑ گئی تو ہسپتال داخل ہو گئے۔ ۲۸ نومبر کو فارغ ہوئے، جس میں ڈاکٹروں نے دل کے تیسرے آپریشن کے لیے ۱۸ دسمبر کی تاریخ مقرر کی۔
• ۱۸ دسمبر گلین فیلڈ ہسپتال لیسٹر میں داخل ہوئے۔
• آخری سال فاؤنڈیشن نے ان کی یہ کتب شائع کیں:
• Key to Al-Baqqrah.
• The Quranic Treasures.
• Gift from Muhammad
(آخری دونوں کتابیں زیر طبع تھیں، جو جنوری ۹۷ میں مارکیت میں آئیں)
۱۹ دسمبر بروز جمعرات آپریشن کے چند گھنٹے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

The post حیات خرم: ماہ وسال، ایک نظر میں-سلیم منصور خالد appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/10/31/10884/feed/ 0 10884