منشورات پبلشرز Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/منشورات-پبلشرز/ Manshurat Wed, 30 Jul 2025 10:26:25 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.8.3 https://manshurat.pk/wp-content/uploads/2024/01/cropped-Man_Logo_New-1-32x32.jpg منشورات پبلشرز Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/منشورات-پبلشرز/ 32 32 228176289 کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے-پروفیسر عبدالقدیرسلیم https://manshurat.pk/2025/03/06/%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%a9%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%82%db%8c%d8%a7%d8%af%d8%aa-%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%92-%d8%aa%d9%82%d8%a7%d8%b6%db%92-%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%81%db%8c/ https://manshurat.pk/2025/03/06/%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%a9%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%82%db%8c%d8%a7%d8%af%d8%aa-%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%92-%d8%aa%d9%82%d8%a7%d8%b6%db%92-%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%81%db%8c/#respond Thu, 06 Mar 2025 04:45:00 +0000 https://manshurat.pk/?p=11449 کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے – خرم مرادؒ کی فکری و روحانی رہنمائی خرم مرادؒ کی تحریریں ہمیشہ ایک زندہ احساس بخشتی ہیں۔ ان کی ہر نئی کتاب یا تحریر جب بھی منظر عام پر آتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی فکری، […]

The post کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے-پروفیسر عبدالقدیرسلیم appeared first on Manshurat.

]]>
کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے – خرم مرادؒ کی فکری و روحانی رہنمائی خرم مرادؒ کی تحریریں ہمیشہ ایک زندہ احساس بخشتی ہیں۔ ان کی ہر نئی کتاب یا تحریر جب بھی منظر عام پر آتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی فکری، روحانی اور تحریکی بصیرت اب بھی نوجوانوں کی تربیت، ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

زیر نظر کتاب “کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے” خرم مرادؒ کی فکر کا نچوڑ ہے۔ اسے ان کے قریبی ساتھی امجد عباسی نے مرتب کیا ہے۔ کتاب میں ان کے خطبات اور تحریریں یکجا کی گئی ہیں۔ یہ ایک مؤثر اور بامقصد تحریری مجموعہ ہے۔

تحریک اسلامی کے مفہوم کو خرم مرادؒ نے وسیع اور ہمہ گیر انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی تحریک محض جماعتی نظم یا تنظیم کا نام نہیں، بلکہ یہ وہ مسلسل جدوجہد ہے جو حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہو کر رسول اکرم ﷺ پر مکمل ہوئی۔ ان کے مطابق، جہاد صرف عسکری معنوں میں نہیں بلکہ فکری، اخلاقی اور معاشرتی جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہی تحریک کا بنیادی تقاضا ہے۔

کتاب میں قیادت، تنظیم اور کارکن کی تربیت کو مرکزی موضوع بنایا گیا ہے۔ خرم مرادؒ کے نزدیک مؤثر قیادت وہی ہے جو ذمہ دار، صاحبِ ایمان اور ترجیحات کی پہچان رکھتی ہو۔ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تحریک کی کامیابی کا دارومدار کارکن کے تزکیۂ نفس پر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کتاب کا بڑا حصہ تزکیۂ نفس کے موضوع پر مرکوز ہے۔ ذکر، تلاوت، دعا، استغفار، تعلق باللہ، اور اخلاص جیسے پہلو خرم مرادؒ کی فکر کا مرکز ہیں۔ ان کے نزدیک، ’’قلب سلیم‘‘ کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ وہ بار بار ’’احسان‘‘ کے مفہوم کو اجاگر کرتے ہیں، جو بندگی کا بلند ترین درجہ ہے۔

منشورات پبلشرز نے اس کتاب کو نہایت خوبصورتی اور نفاست سے شائع کیا ہے، جو ان کی اعلیٰ طباعتی روایت کا تسلسل ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ناگزیر ہے جو دین، دعوت اور تنظیمی جدوجہد سے وابستہ ہے۔

The post کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے-پروفیسر عبدالقدیرسلیم appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2025/03/06/%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%a9%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%82%db%8c%d8%a7%d8%af%d8%aa-%d8%b3%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%92-%d8%aa%d9%82%d8%a7%d8%b6%db%92-%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%81%db%8c/feed/ 0 11449
صرف پانچ منٹ-ہبہ الدباغ https://manshurat.pk/2024/12/12/%d8%b5%d8%b1%d9%81-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d9%85%d9%86%d9%b9-%db%81%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%d8%a8%d8%a7%d8%ba/ https://manshurat.pk/2024/12/12/%d8%b5%d8%b1%d9%81-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d9%85%d9%86%d9%b9-%db%81%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%d8%a8%d8%a7%d8%ba/#respond Thu, 12 Dec 2024 09:44:51 +0000 https://manshurat.pk/?p=11066 شامی اخوان المسلمون کی خونیں سرگزشت (ہبہ الدباغ کی خودنوشت ’صرف پانچ منٹ‘ کامطالعہ) محمد رضی الاسلام ندوی سرزمینِ شام، جس سے اسلامی تاریخ کی عظمتِ رفتہ وابستہ ہے، گزشتہ دو سال سے خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔ یہاں انسان نما وحشی درندے ظلم و جبر ، قتل وغارت گری اور انسانیت سوزی کی […]

The post صرف پانچ منٹ-ہبہ الدباغ appeared first on Manshurat.

]]>
شامی اخوان المسلمون کی خونیں سرگزشت (ہبہ الدباغ کی خودنوشت ’صرف پانچ منٹ‘ کامطالعہ)

محمد رضی الاسلام ندوی

سرزمینِ شام، جس سے اسلامی تاریخ کی عظمتِ رفتہ وابستہ ہے، گزشتہ دو سال سے خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔ یہاں انسان نما وحشی درندے ظلم و جبر ، قتل وغارت گری اور انسانیت سوزی کی بدترین داستانیں رقم کررہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ساٹھ ﴿۶۰﴾ہزار سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، بستیوں کی بستیاں ویران ہوگئی ہیں اور لاکھوں افراد ہجرت کرکے پڑوسی ممالک میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہبہ الدباغ کی خودنوشت ’خمس دقائق و حسب‘ ، جس کا اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے، دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ شام کے اسلام پسند عوام پر انسانیت سوز مظالم کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے، بلکہ گزشتہ چالیس سال سے برابر جاری ہے۔ اس کا آغاز شام کے موجودہ حکمراں کے باپ حافظ الاسد نے کیاتھا۔
اس کا تعلق اشتراکی نظریات کی حامل بعث پارٹی سے تھا۔ اسی طرح وہ گم راہ علوی نصیری فرقے سے تعلق رکھتاتھا۔ اس نے اپنے عہدِ حکومت میں مغربی کلچر اور اشتراکیت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی اور اقتدارپر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے فوج اور انتظامیہ میں علویوں کو بھردیا، جب کہ شام کی غالب اکثریت سنّی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیادیں بہت گہری تھیں اور وہ غیراسلامی کلچر اور اقلیتی غلبے سے سخت متنفر تھے۔

شامی اخوان المسلمون ، جن کی سرگرمیاں مصر میں اس تحریک کی تاسیس ﴿۱۹۲۸ء﴾ کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں، حافظ الاسد کے منصوبوں اور عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر جگہ اس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس لئے حافظ الاسد ان کی سرکوبی کے بہانے ڈھونڈتا رہتاتھا۔ ۱۹۸۰ء میں سنّی مسلمانوں اور نصیریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشمکش برپا ہوئی تو بعثی حکومت نے اس کا ذمہ دار اخوان المسلمون کو قرار دے کر ان پر پابندی عائد کردی اور یہ قانون منظور ہواکہ اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی ہے۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر ان کے ارکان و وابستگان کی پکڑدھکڑ شروع ہوئی۔ جس پر بھی اخوانی ہونے کا شبہ ہوا اسے داخلِ زنداں کردیاگیا، جیلوں میں ان کے ساتھ بدترین تشدد کیاگیا، ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے گولیوں سے بھون دیاگیا، جیلوں میں وقتاً فوقتاً قیدیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ قتل و غارت گری کا نقطۂ عروج وہ واقعہ ہے جو ۲/فروری ۱۹۸۲ء کو شہر حماس میں پیش آیاتھا۔ اس شہر کو اخوان المسلمون کا گڑھ قرار دے کر اس کا محاصرہ کرلیاگیا اور ٹینکوں، توپوں، بکتربند گاڑیوں اوربھاری اسلحے کے ساتھ ہلّہ بول دیاگیا۔ شہر میں زبردست تباہی مچائی گئی، پورے پورے محلّے ان کے مکینوں کے ساتھ زمین بوس کردیے گئے۔ اٹھاسی ﴿۸۸﴾ مسجدیں اور تین ﴿۳﴾ چرچ بالکل منہدم ہوگئے۔ شہر کا محاصرہ ستائیس ﴿۲۷﴾ روز تک جاری رہا، تقریباً چالیس ہزار افراد کو گولیوں سے بھون کر اجتماعی قبروں میں دفن کردیاگیا، پندرہ ہزار افراد کا کچھ پتا نہ چلا، گرفتاریوں ، ایذارسانیوں اور تشدد و بربریت کا یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔ ہبہ الدباغ کی یہ خودنوشت اُسی دور میں شام کے عقوبت خانوں میں اخوان المسلمون کے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر توڑے جانے والے دل دوز والمناک مظالم کی مختصر روداد ہے۔

ہبہ کا تعلق حماس کے ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ وہ ماں باپ، سات بھائیوں اور چار بہنوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے ماں باپ کوئی سیاسی وابستگی رکھتے تھے، نہ خود ہبہ کسی پارٹی کی ممبر تھیں۔ صرف ان کاایک بھائی ﴿صفوان﴾ اخوان المسلمون کا سرگرم کارکن تھا۔ اخوان پر پابندی عائد کردیے جانے کے بعد ان کی پکڑدھکڑ شروع ہوئی تو جو لوگ پڑوسی ملک اردن نکل جانے میں کامیاب ہوگئے ان میں وہ بھی تھا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں ہبہ حمات چھوڑکر دمشق چلی گئیں اور وہاں یونی ورسٹی کے شریعہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ رہائش کے لئے انھوں نے چند ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ مل کر ایک مکان کرائے پر حاصل کیا۔ ابھی ایک سال بھی پورا نہ ہواتھا اور امتحان شروع ہونے والا تھا کہ ۱۹۸۰ء کی آخری تاریخ میں نصف شب خفیہ محکمے کے اہل کاروں نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا اور انھیں اور ساتھ رہنے والی دو لڑکیوں ﴿ماجدہ اور ملک﴾ کو اپنے ساتھ تفتیشی دفتر لے گئے۔ لے جاتے وقت تو انھوں نے کہاتھا کہ صرف پانچ منٹ میں تفتیش کرکے واپس بھیج دیں گے، لیکن ان لڑکیوں کو عقوبت خانوں میں نو سال تک تعذیب و تشدد کے جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔

ہبہ پر الزام لگایاگیاکہ وہ اخوان کی آرگنائزر ہے، اس کا ترجمان مجلہ ’النذیر‘ بانٹاکرتی ہے، سید قطب کے افکار پر مشتمل درسِ قرآن دیتی ہے، اپنے پاس اسلحہ رکھتی ہے وغیرہ۔ حالانکہ وہ ان تمام الزامات سے بری تھیں۔ ان کا اگر کوئی جرم تھا تو بس یہ کہ وہ ایک اخوانی کی بہن تھیں۔ ان برسوں میں ہبہ پر کیاکچھ بیتی، اس کا تذکرہ انھوں نے تفصیل سے اپنی اس خودنوشت میں کیا ہے۔ اس کاخلاصہ انھوں نے کتاب کے مقدمے میں ان الفاظ میں بیان کیاہے:

میں اتنا عرصہ جیل کی کال کوٹھری میں اپنے بھائی کی ’رہین‘ کے طورپر رہی، جو پرجوش سیاسی کارکن تھا۔ میری زندگی کے بہترین سال قاتل وحشیوں کی نذر ہوگئے۔ میرے اعضا شل ہوگئے اور میری روح نے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لی۔ صرف ایک افترا کے سبب جو مجھ پر باندھا گیا. میں نوبرس تک جیل کے ایک سیل سے دوسرے سیل، ایک بلاک سے دوسرے بلاک اور ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل ہوتی رہی۔ نوبنجربرس. ان برسوں میں انسانی رحم کا ہر دروازہ مجھ پر بند کردیاگیا۔ ان کی سزاؤں نے میرے اندر اٹھنے والی ہر امید کا دم توڑدیا اور بنی نوع انسان سے متعلق ادنیٰ سی آس بھی معدوم ہوگئی، صرف اللہ سے امید زندہ رہی. میں شام کی حکومتی جیلوں کے جہنم میں نوبرس تک بلاقصور کسی اور کی رہین کے طورپر جلتی رہی۔ میں بتانہیں سکتی کہ عمرِ عزیز کے نوبرس اس ملعون نظام میں کس طرح بیتے، جو کچھ پیش آیا اس کی حقیقی تصویر گری سے یہ قلم عاجز ہے۔‘‘ ص۲۲-۲۵

یہ صرف ایک خاتون کے ایامِ اسیری کی آپ بیتی نہیں ہے، بلکہ اس میں بے شمار معصوم خواتین کی داستانِ الم آگئی ہے۔ ان خواتین کا جرم اگر کچھ تھاتو بس یہ کہ ان میں سے کوئی کسی اخوانی کی ماں تھی، کسی کی بہن، کسی کی بیوی اور کسی کی بیٹی، یا انھوں نے کسی اخوانی کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی۔ اس خودنوشت میں مصنفہ نے ان میں سے بہت سی خواتین کا تذکرہ نام بہ نام کیا ہے، مثلاً:

٭ الحاجۃ مدیحہ، چالیس کے پیٹے میں تھیں، بالکل ان پڑھ، مگر وہ حلب کی مشہور شخصیت تھیں، ان کاجرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کا ایک حصہ ہاسٹل کی طرح بنارکھاتھا، جس میں رہنے والوں میں سے کچھ لوگ حکومت کو مطلوب تھے۔

٭ الحاجۃ ریاض، چالیس برس کی، غیرشادی شدہ، سیدھی سادی خاتون۔ الزام یہ کہ انھوںنے اخوان کے مصیبت زدہ بعض خاندانوں تک کچھ بہی خواہوں کی دی ہوئی رقم پہنچائی تھی۔

٭ عائشہ کا تعلق حلب سے تھا اور پیشے سے ڈاکٹر تھی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کے خلاف سرگرم کچھ زخمی نوجوانوں کا علاج کردیاتھا۔

٭ مُنیٰ، پینتیس چھتیس سال کی خاتون، تین بچوں کی ماں۔ اس نے ایک اخوانی کو پناہ دے دی تھی، اس جرم میں اسے اور اس کی بہن، بھائی اور باپ کو گرفتار کرلیاگیاتھا۔

٭ حلیمہ، پینتیس برس کی دیہاتی خاتون، پانچ بچوں کی ماں، جن کی عمریں چار سے نو برس کے درمیان تھیں، اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کو مطلوب کچھ افراد کو اپنے گھر میں چھپارکھاتھا۔

٭ منتہیٰ ، سولہ برس کی دوشیزہ، شوہر کوحکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے الزام میں قتل کردیاگیا۔ خفیہ پولیس نے اس کی شیرخواربچی کو پرے پھینکا اور اسے گرفتار کرکے داخلِ زنداں کردیا۔

٭ غزوہ، حمات کی رہنے والی ماہرِ دنداں خاتون۔ جرم یہ کہ اس نے ایک گھر خریدنے میں اخوانی نوجوانوں کی مدد کی تھی۔

٭ مطیعہ، عمر تقریباً چالیس سال، چار بچوں کی ماں، شوہر اخوان کے حامیوں میں سے تھے، گرفتاری سے بچنے کے لئے وہ فرار ہوگئے تو اسے پکڑلیاگیا۔ وہ اس وقت حمل سے تھی، دورانِ اسیری جیل میں اس کے یہاں ولادت ہوئی۔

٭ ام ہیثم، شوہر اور چار بچوں کے ساتھ اخوان کے حامیوں میں سے ایک کے گھر کرائے پر رہتی تھیں۔ خفیہ پولیس نے چھاپہ مارا تو سب کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کرلیا، پھر شوہر کو اسی قیدخانے میں قتل کردیاگیا۔

٭ نجویٰ، حلب کے میڈیکل کالج میں سال دوم کی طالبہ ۔ اس کاجرم یہ تھا کہ وہ ایک اخوانی کی منگیتر تھی۔

تفتیشی مراکز اور جیلوں میں ان خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور وحشت وبربریت کا جو ننگا ناچ دکھایاگیا، وہ خون کے آنسو رُلانے والا ہے۔ کیا کوئی انسان اس حد تک نیچے گرسکتا ہے۔ ہبہ الدباغ نے اپنی خودنوشت میں اپنے ساتھ پیش آئے ظلم و تشدد کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ایک اہل کار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹکاکر میری گردن، کلائیاں، پیٹ، گھٹنے اور پائوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکادیا۔ میرے پائوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکاتھا، صرف جرّابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔ اہل کار پوری قوت اور غضب سے چلّایا: سر، دیکھئے، آپ نے نوٹ کیا؟ یہ کہتی ہے، یہ اخوانی نہیں، لیکن اس نے اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ رکھا ہے ان ہی کی طرح، اس ٹکٹکی پر بھی اس کا ستر قائم ہے۔‘‘ ص ۵۳

تفتیش کاایک اور انداز ملاحظہ کیجئے

’’تفتیشی افسر کے ہاتھ میں مربع شکل کا بجلی کا بورڈ اور پلگ تھا اور ایک ہاتھ نما چیز تھی، جس پر کلپ لگے ہوئے تھے۔ اس نے کلپ میری انگلی کے ساتھ لگاکر اس میں کرنٹ چھوڑدیا اور ڈنڈے سے میرے پائوں کے درمیان میں ضرب لگائی، ایسا لگاکہ میرے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ وہ میری چیخوں کو خاطر میں لائے بنا بولا:

’’ہوں. تمھیں بکواس کرنی پڑے گی۔

میں چلائی: میں کہہ چکی ہوں، میرے پاس اعتراف کرنے کو کچھ نہیں۔

وہ سرد مہری سے بولا: تم نے دیکھانہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر ہوتا ہے۔

میں نے کہا: اگر ایسا ہی ہوتو بھی کیا میں ان چیزوں کااعتراف کرلوں جو میں نے نہیں کیا۔

اس پر وہ بولا: تم جھوٹ کہہ رہی ہو اور ہم سے چھپارہی ہو۔ تمھیں ابھی ہمارے ساتھ جانا ہوگا اور اس گھر کی نشان دہی کرنی ہوگی جہاں تمھارا بھائی اور اس کے ساتھی رہتے ہیں، ورنہ ہم تجھے ہلاکت تک پہنچادیںگے۔ میرے انکار پر تعذیب کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پائوںپر کوڑے برسانے لگا۔ پائوں پر ضرب پڑنے سے پہلے اس کی سنسناہٹ سنائی دیتی۔ ایک اور اہل کار اپنے بید کے ساتھ تعذیب دینے میں شریک ہوگیا۔ دوسرا اہل کار میرے سر کی جانب کھڑا ہوکر میری انگلیوں پر نئے سرے سے کرنٹ لگانے لگا۔ اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ اس کو الفاظ میں نہیں بیان کرسکتی۔ شروع میں چیختی رہی اور میری زبان پر ’یا اللہ‘ کا کلمہ جاری رہا، لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میرے بس میں نہ رہا۔ میں سرپٹختی رہی اور مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا۔‘‘ ص ۵۳-۵۵

تفتیشی سیل میں ٹارچر کے ایسے ہی وحشیانہ طریقے دیگر خواتین کے ساتھ بھی اختیار کئے جاتے تھے۔ ہبہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب میں جا بہ جا کیا ہے۔ ان کے مطابق کپڑے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے۔ تھپڑوں، گھونسوں، کوڑوں اور ڈنڈوں کی بارش کی جاتی، انگلیوں پر شدید ضربیں لگائی جاتیں اور ناخن کھینچ کر اکھاڑدیے جاتے، سگریٹ سلگاکر پوشیدہ اور نازک اعضا کو جلایا جاتا، بالوں کو پکڑکر کھینچاجاتا اور سرکو دیوار اور زمین پر پٹخاجاتا، ٹکٹکی پر باندھ کر الٹا لٹکادیا جاتا، بے ہوش ہونے پر پوری قوت سے پانی انڈیلا جاتا، جس سے بسااوقات قیدیوں کے کان کے پردے پھٹ جاتے، بجلی کے کرنٹ لگائے جاتے۔ اس طرح کے اور بھی بے شمار وحشیانہ طریقے تھے جن کے ذریعے ملزم کو ناکردہ جرم قبول کرنے پر مجبور کیاجاتاتھا۔ جرم نہ قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسلسل ان اذیتوں سے دوچار رہے اور جرم قبول کرنے کا نتیجہ لازماً سزائے موت تھی۔

یہ تو خواتین پر مظالم کا حال تھا۔ اخوان کے مردوں کا حال اور بھی بُرا تھا۔ وہ ان جلاّدوں کی نظر میں کسی ہم دردی کے مستحق نہ تھے۔ ان کو سخت سے سخت اذیتیں دینے کی کھلی چھوٹ انھیں حاصل تھی۔ انھیں ہر طرح سے مشقِ ستم بنایا جاتا، ان کے ساتھ جانوروں جیسا، بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک کیاجاتا۔ کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’بلاک میں قیدیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اگر ایک خاتون کروٹ لینا چاہتی تو پورے بلاک کی خواتین کو حرکت دینی پڑتی۔‘‘ ﴿ص۳۸﴾’ ’اگر ہم اپنی حالت کا مقابلہ نوجوان مرد قیدیوں سے کرتے تو وہ بالفعل جہنم میں رہ رہے تھے۔ جب بلاک میں خواتین قیدیوں کی تعداد دس سے زیادہ ہوجاتی اور ہم دم گھٹنے کی شکایت کرتے، اس وقت ان کے ایک ایک بلاک میں پچاس سے زیادہ گرفتارانِ بلا ہوتے اور انھیں دن میں بھی سانس لینا دشوار محسوس ہوتا اور رات کو سونے کے لئے پائوں دیوار کے ساتھ اونچے کرکے صرف کمر زمین پر رکھ کر سوتے اور اس میں بھی انھیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔‘‘ ص ۱۱۵

’’ایک روز اہل کاروں نے ایک مسکین کو کمرۂ تعذیب سے نکال کر ہمارے بلاک کے سامنے ڈالا، تاکہ اسے دوسری جگہ منتقل کرکے باقی کسر پوری کرسکیں۔ اس کاچہرہ اور بدن زخموں سے چور تھا۔ پیاس کی شدت سے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور جسم سے خون رِس رہاتھا۔ وہ گڑگڑاکر پانی کاایک گھونٹ مانگ رہاتھا، لیکن اسے جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد ہم نے کچھ پانی بلاک سے باہر زمین پر بہادیا اور اس نے زمین سے چاٹ لیا۔‘‘ص ۱۲۰

’’ایک دفعہ ہم نے دیکھاکہ وہ ایک دیہاتی کو پکڑلائے اور اسے برہنہ کردیا۔ اہل کار دونوں جانب کھڑے ہوگئے اور ڈنڈوں اور لاتوں سے اس کی درگت بنانے لگے۔ وہ اسے ہینڈزاپ کرواکر کبھی ایک طرف بھگاتے اور کبھی دوسری طرف۔ وہ کبھی تیزی سے بھاگتا اور کبھی سست پڑجاتا، حتیٰ کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ پھر وہ اسے اٹھاکر غسل خانوں میں لے گئے۔ وہ کبھی اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالتے اور کبھی تیزگرم۔ وہ مسکین بڑی بے بسی سے چیختا چلاّتا رہا، کسی کو اس پر رحم نہ آیا، گویا وہ بھیڑبکری ہو قصّابوں کے بیچ میں۔‘‘ ص ۱۱۹

اس کی تفصیل خود ہبہ کی زبانی سنیے

ان سب کو مارنے کے بعد میری بیس سالہ بہن ظلال کو بھی شہید کردیا۔ میرا چودہ برس کا بھائی عامر اور بارہ برس کا بھائی ماہر بھی ان ہی حادثات کے دوران شہید ہوئے۔ سب نے اکٹھے ہی اپنی نذر پوری کردی اور ان کے لاشے یوں ہی بے گورو کفن پڑے رہے۔ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے حلب میں میرے بھائی وارف، جس کی عمر اٹھارہ برس تھی، کی شہادت کاسانحہ پیش آچکاتھا۔ اس طرح مجھے والدین اورآٹھ بہن بھائیوں کی شہادت کی خبر ایک ساتھ ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خبر کا مجھ پر ایسا اثر نہ ہوا جیسا میری ساتھی قیدی خواتین سمجھ رہی تھیں۔ اللہ نے مجھے اس ناگہانی خبر پر صبر اور حوصلہ دیا،کیوں کہ یہ سب ان شاء اللہ شہادت کے درجے پر فائز ہوں گے اور شہادت کی آرزو تو ہر مسلمان کرتا ہے۔‘‘ ص۱۷۱-۱۶۷، بہ تلخیص

مصر میں اخوان المسلمون پر توڑے جانے والے مظالم کے تذکرے پر مشتمل متعدد کتابیں منظرعام پر آئی ہیں اور ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے، لیکن دیگر مسلم ممالک اور خاص طورپر شام میں اخوان کے ناگفتہ بہ حالات کا دنیا کو بالکل علم نہ تھا۔ ہبہ الدباغ انتہائی شکریے کی مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑے موثر اسلوب اور ادبی پیرایے میں اپنی خودنوشت لکھ کر ان کی ایک ہلکی سی جھلک دکھادی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، جسے بیان الخطیب نامی خاتون نے کیا ہے، کینیڈا سے Just Five Minuteکے نام سے ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔ اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے میمونہ حمزہ نے کیا ہے اور اسے ۲۰۱۲ء میں لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے ’منشورات‘ نے شائع کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے اور اس کا ترجمہ دیگر زبانوں میں بھی کیاجائے، تاکہ اجتماعی شعور بیدار ہو اور دنیا کو شام کی بعثی حکومت کے انسانیت سوز مظالم سے واقفیت ہوسکے۔

The post صرف پانچ منٹ-ہبہ الدباغ appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/12/%d8%b5%d8%b1%d9%81-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d9%85%d9%86%d9%b9-%db%81%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%d8%a8%d8%a7%d8%ba/feed/ 0 11066
ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ https://manshurat.pk/2024/12/09/%d9%86%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b3-%d8%b1%d8%b3%d8%a7%d9%84%d8%aa%d8%90-%d8%8c%d8%a7%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%b0-%d8%b9%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%aa%db%8c-%d9%81%db%8c%d8%b5%d9%84%db%81/ https://manshurat.pk/2024/12/09/%d9%86%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b3-%d8%b1%d8%b3%d8%a7%d9%84%d8%aa%d8%90-%d8%8c%d8%a7%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%b0-%d8%b9%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%aa%db%8c-%d9%81%db%8c%d8%b5%d9%84%db%81/#respond Mon, 09 Dec 2024 07:25:41 +0000 https://manshurat.pk/?p=11051 ’ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ […]

The post ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ appeared first on Manshurat.

]]>
ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ پیشِ نظر کتاب میں ۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،مفتی محمد تقی عثمانی، جسٹس فدا محمد خاں، عرفان صدیقی___ اور پھر مفتی منیب الرحمٰن، سیّد ساجد علی نقوی ، سیّد حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی ، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی، مولانا زاہد الراشدی ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق ،خورشید احمد ندیم ، جاوید چودھری ، حفیظ اللہ خاں نیازی، بابراعوان، محمدا عجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان، اسرار احمد کسانہ، شاہد حنیف کے مضمون بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ انگریزی تقریر (مع اُردو ترجمہ)بھی کتاب میں شامل ہے، جو انھوں نے قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کے فیصلے اور دستوری ترمیم کے موقعے پر کی تھی۔

ناموسِ رسالتؐ کے اس تاریخی مقدمے کی رُوداد کچھ اس طرح ہے کہ درخواست گزار سلمان شاہد نے وفاقِ پاکستان اور چھے دوسروں کے خلاف جو درخواست دی، اس کی سماعت ۷مارچ ۲۰۱۷ء سے شروع ہوئی اور ۳۱ مارچ کو تاریخی فیصلہ آگیا۔

فیس بک (برقی میڈیا )پر بعض لوگوں نے جو نام نہاد مسلمان تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّہات المومنینؓ ،صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور حد یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد ، خاکے، تصاویر ، تحریروں اور ویڈیوز کی شکل میں نشر کرنا شروع کر دیا تھا۔ درخواست گزارنے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے کو اس توہین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، مگر اس پر مذکورہ محکمے کی طرف سے کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔

جسٹس شوکت صدیقی لکھتے ہیں: ’’عدالت ہذا کے رُو برو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا۔ میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل ودماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (کتابِ مذکور:ص۴۸-۴۹)

عدالت نے چیمبر میں متعلقہ حکام کے سامنے مذکورہ قابلِ اعتراض مواد پیش کیا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ حکومت ِ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ: ’’ ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآنِ مجید اور دنیا کی معزز ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ کے خلاف گھٹیا، اور شرم ناک مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۴)

۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور جسٹس صدیقی صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ پانچ بلاگرز ، جو ملک سے فرار ہو چکے تھے، انھیں پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کی نشان دہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت وتشہیر کر رہی ہیں، تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ محترم جج صاحب نے لکھا ہے: ’’عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی، لیکن ایسے واقعات اسی صورت میں رک سکتے ہیں، جب گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانت دارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدّعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار‘‘۔(ایضاً،ص۶۴)

فیصلے میں مختلف اخباروں کے اقتباسات اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا یہ بیان بھی پیش کیا گیا کہ: ’’قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آجائیں اور ان کے جذبات بے قابو ہو جائیں۔ آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں‘‘۔ (ایضاً،ص۷۴)

فیصلے میں پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء اور ایوانِ زیریں (پارلیمنٹ ) کے ۱۴ مارچ ۲۰۱۷ء کی قرار دادوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جن میں: ’’دین اور پیغمبر خاتم النبیین ؐ ، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔(ایضاً،ص۷۶)

جہاں تک اس جرم کی سزا کا تعلق ہے ، فاضل جج نے قرآنِ مجید سے سورئہ احزاب (۳۳:۵۷) اور سورۂ توبہ (۹:۶۱-۶۹) کی آیات سے بھی فیصلے میں استشہاد کیا ہے۔ ’’مدینہ کے منافقین کی حرکات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت پہنچاتی تھیں، ان کی طعنہ زنی، اور بے ہودہ گفتگو جو وہ لوگ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتے تھے، انھیں کفروالحاد کی گہرائیوں میں گرا دیتی تھی، جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کے اعمال وافعال کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ مسلم قانون داں اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال وافعال کو اس دنیا میں اور آخرت میں بے ثمر بنادیا جانا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اگر اس فوجداری جرم کو سزاے موت کا مستوجب قرار نہ دیا جائے۔
گویا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا ، سزاے موت سے کم نہیں ہونی چاہیے‘‘ (ایضاً،ص۷۹-۸۰)۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایسے شخص کو کافر اور ’مباح الدّم‘ قرار دیاہے۔ گویا وہ سزاے موت کا مستوجب ہے (ایضاً،ص۸۱)۔ یہی موقف امام فخرالدین رازی، امام عمادالدین ابن کثیر ، علامہ شمس الدین قطبی، امام احمد بن علی ابوبکر جصاص ، ابولیث بن سعد کا بھی ہے، جن کے حوالے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔

خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دینِ اسلام کے مخالف اور آپؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جن میں کعب بن اشرف، یہود کا سرغنہ، ابورافع (حجاز کا بڑا سوداگر )، ابن خطل(بدگو) شامل تھے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی، توہین وتنقیص ، تحقیرواستخفاف، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، باالفاظِ صریح ہو یا بااندازِ اشارہ وکنایہ ، تحقیر کی نیت سے ہو یا بغیر نیت تحقیر کے، یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ؐ کے اسماے گرامی، اور ارشادات ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنیٰ اور معمولی سی تحقیر، یا اس میں کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے۔ ہر شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار ، خصائل اور اوصافِ حمیدہ ، نسبِ پاک کی طہارت وپاکیزگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وحرمت کی طرف عیب منسوب کرتا ہو، تو نہ صرف یہ کہ ضلالت وگمراہی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، بلکہ ایسے بدبخت وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے اُمت ایسے بدبخت کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۰۵-۱۰۶)

اس مسئلے پر اجماع امت کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل منصف نے مسلکِ مالکیہ کے قاضی عیاض اندلسی، حنابلہ کے ابن تیمیہ ، شافعیہ کے تقی الدین علی السبکی اور احناف کے محمد امین شامی کے حوالے دیے ہیں۔ ’اسلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و قانونی حیثیت‘ کے عنوان سے قرآنِ مجید کی آیات وا حادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام کے بارے میں احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

فاضل منصف نے برطانوی ہند میں مروجہ تعزیرات کے حوالوں سے بھی توہین مذہب کے قوانین کے حوالے دیے ہیں: ’’بین الاقوامی انجمنوں واداروں، بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی اعلامیے ،اور یورپ کے مختلف ممالک کے قانون سے یہ واضح کیا ہے کہ توہین مذہب ، توہین مقدس شخصیات اور افراد واجتماع کے مذہبی جذبات واحساسات کا لحاظ اور اس ضمن میںاظہار ِ راے وتقریروبیان پر مناسب قانونی قدغن دنیا کے تمام مہذب ممالک کا خاصّہ ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۹۰)

تا ہم، توہین مذہب ومذہبی شخصیت کے الزام پر کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرے اور اپنے خیال کے مطابق ’مجرم‘ کو سزا دے ڈالے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا: ’’___محض ایک جملے میں بیان کردہ وضاحت کو جانچے ، اور بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے، بغیر شہادت قلم بند کیے، اسی موقعے پر اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کرے کہ مقتول واجب القتل ہے، اور پھر اسی لمحے اسی مقام پر فی الواقع اپنے ہاتھوں سے سزا کا نفاذ بھی کر ڈالے۔ کوئی معقول انسان مجرم — کے اس اقدام کا دفاع نہیں کر سکتا، کیوںکہ ہم ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں ، جو ایک دستور ، ایک قانون ، ایک ضابطہ اور ایک طریقِ کار کے ما تحت ہے، اور ہر باشندہ اس امر کا پابند ہے کہ ریاست کی وضع کردہ حدود کے اندر رہے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۰۲)

فاضل منصف نے عدالتِ عالیہ لاہور کے ۲۰۱۲ء کے فیصلوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا:

وزیرِ اعظم کی تشکیل کردہ بین الوزارتی کمیٹی ’’ویب سائٹس پر چوکس نظر رکھے گی اور قابلِ اعتراض مواد کے فتنۂ شہود پر آنے کی صورت میں فوری ایکشن لے گی‘‘۔
آئی سی ٹی ڈویژن کے کرائسز سیل ایسے مواد کا سراغ لگانے اور متعلقہ ویب سائٹس URL کی بلا تاخیر بندش میں کوتاہی یا غفلت کے خلاف سخت قانونی اقدام کیا جائے۔
حکومت اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں جذبے سے اٹھائے ، تا کہ بین الاقوامی سطح پر قانون سازی ہو سکے۔
اس مسئلے کو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں بھی اجاگر کیا جائے۔
غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ویب سائٹس کو مستقل طور پر بند کر دیا جائے۔ (ایضاً،ص۱۹۹-۲۰۰)
فیصلے میں کہا گیا: [توہین مذہب و توہین اکابرین مذہب کا] ’’گھنائونا فعل ایک سازش کے تحت مسلسل جاری ہے۔ اس لیے وزارت ِ داخلہ اور دیگر متعلق اداروں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اس شرانگیزی کا مکمل خاتمہ کرائے ، اور یہ مطالبہ کرے کہ توہین اللہ رب العزت ، توہین رسالتؐ ،توہین امہات المومنین ؓ، توہین اہل بیت اطہارؓ، توہین صحابہ کرامؓ ، اور توہین قرآن پاک کی ناپاک جسارت کرنے والے صفحات کو نہ صرف بند کیا جائے ، بلکہ فیس بک ، انتظامیہ ایسے مواد کو اپنی منفی فہرست میں شامل کرے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۱۶)

فاضل منصف کے اس تاریخی فیصلے کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں انھوں نے کئی مقامات پر اپنی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے عربی ، فارسی اور اُردو کے نعتیہ اشعار (بعض جگہ پوری نعتیں ) سے استشہاد کیا ہے۔ ان شعراے کرام میں حسّان بن ثابت ، ابوطالب، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال ، عبدالستار خاں نیازی، خالد محمود خالد، نعیم صدیقی اور مظفروارثی شامل ہیں۔ اس سیاق میں حالی کی مُسدّس کے اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ، مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا‘‘ ، ہمارے خیال میں نعت کے بہترین اشعار میں سے ہیں، لیکن فاضل منصف کی نظروں سے رہ گئے ہیں۔

فیصلے کا اختتام بھی چند اشعار پر ہوتا ہے :

میں نہ زاہد ، نہ مجاہد، نہ مفسر ، نہ حکیم

میری ذات دلِ شرمندۂ عصیاں ہی سہی

کوئی نسبت تو ہوئی رحمتِ عالمؐ سے مجھے

آخری صَف کا مَیں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی

“ناموسِ رسالتؐ جیسے بنیادی اور حساس مسئلے پر اس تاریخی فیصلے اور دوسری تحریروں کو مرتب کر کے کتابی شکل دینے، صحت کے ساتھ بعض عربی یا انگریزی عبارتوں کے تراجم کا اہتمام کرنے، تفصیلی اشاریے مرتب کرنے کے لیے کتاب کے مرتب اور ان کے ہم کار شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب منصہ شہود پر آگئی ہے، جو ہمیشہ حوالے کی کتاب تصور کی جائے گی۔ یہ کتاب منشورات پبلشرز کی جانب سے شائع کی گئی ہے، جو علم اور تحقیق کا ایک قیمتی ذخیرہ فراہم کرتی ہے۔”

The post ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/09/%d9%86%d8%a7%d9%85%d9%88%d8%b3-%d8%b1%d8%b3%d8%a7%d9%84%d8%aa%d8%90-%d8%8c%d8%a7%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%b0-%d8%b9%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%aa%db%8c-%d9%81%db%8c%d8%b5%d9%84%db%81/feed/ 0 11051
خون اور آنسوئوں کا دریا-پروفیسر عبدالقدیر سلیم https://manshurat.pk/2024/12/09/%d8%ae%d9%88%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a2%d9%86%d8%b3%d9%88%d8%a6%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%d8%af%d8%b1%db%8c%d8%a7-%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%81%db%8c%d8%b3%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%82/ https://manshurat.pk/2024/12/09/%d8%ae%d9%88%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a2%d9%86%d8%b3%d9%88%d8%a6%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%d8%af%d8%b1%db%8c%d8%a7-%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%81%db%8c%d8%b3%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%82/#respond Mon, 09 Dec 2024 06:56:34 +0000 https://manshurat.pk/?p=11047 خون اور آنسوئوں کا دریا پروفیسر عبدالقدیر سلیم | جنوری ۲۰۱۸ |قطب الدین عزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، والدین کے ساتھ حیدر آباد دکن منتقل ہوئے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پائی ۔ پھر وہاں سے مدراس (چنائے ) اور بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ […]

The post خون اور آنسوئوں کا دریا-پروفیسر عبدالقدیر سلیم appeared first on Manshurat.

]]>
خون اور آنسوئوں کا دریا
پروفیسر عبدالقدیر سلیم | جنوری ۲۰۱۸ |قطب الدین عزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، والدین کے ساتھ حیدر آباد
دکن منتقل ہوئے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پائی ۔ پھر وہاں سے مدراس (چنائے ) اور بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ سند یافتہ ہوئے۔ پاکستان ہجرت کے بعدصحافت سے وابستہ ہو گئے۔ وزارت خارجہ میں اہم عہدوں پر سرفراز ہوئے اور کئی بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اپنی مثبت فکر سے شغف کی بنا پر انھیں ادب، سیاست اور ثقافت کے حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پیش نظر کتاب خون اور آنسوؤں کا دریا کے مصنف قطب الدین عزیز نے مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کی اَلم ناک داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: مارچ ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا اور پورے صوبے میں لاقانونیت ، آتش زنی ، لُوٹ مار اور بے قابو قتل وغارت کا سلسلہ پھیل گیا تو پاکستان میں جنرل آغا یحییٰ خان کی صدارت میں مارشل لا حکومت نے مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت دی کہ یہ خبریں شائع نہ کی جائیں، مبادا اس سے مغربی پاکستان میں آباد بنگالیوں کو نقصان پہنچے ۔ اس طرح ان خبروں کو دبادیا گیا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ دہشت گرد قوم پرست بنگالیوں کے ہاتھوں اسیر تھے، مگر وہاں سے کسی طرح جان بچا کر ہجرت کرکے آنے والوں کی داستانیں رفتہ رفتہ عام ہوتی گئیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ، جو ابتداً بنگالیوں کے ’حق خود ارادی ‘ کے تناظر میں ساری ہنگامہ آرائی کو دیکھ رہے تھے، اب ’غیر جانب دار‘ بننے لگے۔ لندن کے سنڈے ٹائمز کے نمایندے اینتھونی مسکارن ہارس ، جس نے کئی مضامین میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا تھا، کہ وہ بنگالیوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، آخر سچ کہنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’ ہزاروں بدقسمت خاندانوں کو جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے تھے، انھیں بڑی بے رحمی سے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ، یا خاص طور پر بنائے گئے چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹ دیا گیا۔ بچے بھی اس ظلم سے بچ نہ سکے اور جو ذرا قسمت والے تھے، ان کو ان کے والدین کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ لیکن ان میں ہزاروں ایسے بھی تھے، جن کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کے بازو اور ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ غیر بنگالیوں کی ۲۰ ہزار سے زائد لاشیں بڑے بڑے شہروں جیسے چٹاگانگ ، کھلنا اور جیسور میں پائی گئی ہیں۔ اصل تعداد جو مجھے مشرقی بنگال میں بتائی گئی وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ ہزاروں غیر بنگالی بغیر کسی نا م ونشان کے غائب کر دیے گئے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹ )

مصنف نے ’’ مشرقی پاکستان کے ۳۳ ؍اضلاع اور شہروں ڈھاکہ ، نارائن گنج، چٹاگانگ ، چندرا گھونا اور رنگامتی ، کھلنا ، ست خیرہ ، دیناج پور، پاربتی پور، ٹھاکر گائوں ، لکشم ، راج باڑی، گو لندو، فرید پور کشتیا، چوا ڈنگا، مہر پور اور ظفر کنڈی ، اشوردی ، پاکسے ، نواکھالی، سلہٹ مووی بازار، بہراماڑا، نارکل ڈنگا، رنگ پور، نیلفاماری، سید پور، لال منیر ہاٹ، جیسور ، نریل ، باجر ڈنگا، جہنی ڈاہ، نواپاڑا، باری سال، میمن سنگھ ، راج شاہی اور ناٹور ، پبنہ اور سراج گنج ، کومیلا، برہمن باڑیا ، بوگرا اور نو گائوں ، سنتھارکے الگ عنوانات کے تحت ابواب میں ان علاقوں اور شہروں اور شہریوں کی دُکھ بھری داستانیں بیان کی ہیں، جو انھوں نے چشم دید گواہوں یا آپ بیتی بیان کرنے والوں سے خود سنیں اور ریکارڈ کیں۔ مصنف نےایک ٹیم کے ذریعے مشرقی پاکستان کے ۵۵ شہروں /قصبوں سے تعلق رکھنے والے گواہوں کے بیانات / شہادتیں اکٹھی کیں، اور بڑی احتیاط اور دیانت سے اسے رپورٹ کیا گیا ہے۔

 ’’میں اس وقت حواس باختہ ہو گیا اور اپنا خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس کیا ، جب میں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں چٹاگانگ سے جان بچا کر کراچی آنے والے غیربنگالی پاکستانیوں سے ان کی رُوداد سنی ۔ ان کے کہنے کے مطابق : عوامی لیگ کے منظم دہشت گردوں اور باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قصابوں کی طرح کاٹا ۔ یہ تفصیلات سن کر میری روح کانپ اُٹھی اور اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے آج بھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ میں تو بنگالیوں کو نہایت شائستہ اور فن وادب کے ذوق کی وجہ سے پسند کرتا تھا ‘‘۔ (ص ۱۹)

امریکا اور یورپ میں بھارت نے منفی پروپیگنڈے کے لیے جنگی بنیادوں پر سیلابی ریلے کی طرح بے شمار کتابیں اور پمفلٹ شائع کیے۔ جن میں پاکستانی فوج پر لاکھوں بنگالیوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حکومت پاکستان مؤثر اور جوابی کارروائی نہ کرسکی ، اور جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مغربی پاکستان میں ردّ ِ عمل کے طور پر بنگالیوں پر ظلم نہ ہونے پائے۔

مشرقی پاکستان کے اس المیے میں جنرل یحییٰ خان (اس وقت کے صدر پاکستان ) اور ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۷دسمبر۱۹۷۰ء کے انتخابات نے عملی طور پر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دھونس ، دھاندلی اور تشدد کی سیاست نے قومی اسمبلی کی ۳۰۰ نشستوں میں مشرقی پاکستان کی مجیب پارٹی (عوامی لیگ) نے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں اور ملک کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے ۸۱ نشستیں جیتیں۔ صدرجنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے بعد دو ماہ تک تو اسمبلی کا اجلاس ہی نہ بلایا ۔ آخر ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں اجلاس طلب کیا گیا۔ لیکن مغربی پاکستان سے اکثریتی لیڈر بھٹو صاحب نے اصرار کیا کہ: ’’دستوری فارمولا اسمبلی اجلاس سے باہر طے کیا جائے، اور اگر دستور سازی کے لیے مقرر کردہ ۱۲۰دنوں میں دستور نہ بنا تو دستور ساز اسمبلی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا‘‘۔ جب انھیں اس ضمن میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ مغربی پاکستان سے کوئی منتخب رکن ڈھاکہ جائے گاتو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اور اس طرح ’اِدھر ہم ، اُدھر تم‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اسمبلی کے اجلاس کے التوا سے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ جس کو دبانے کے لیے وہاں ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور بھٹو نے کہا : ’’خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا‘‘ ۔ لیکن ’پاکستان ‘ کا مطلب صرف اس کا مغربی بازو تو نہیں تھا ! دراصل یہ پاکستان کے انہدام کی ابتدا تھی ، لیکن فاضل مصنف نے اس پوری کہانی سے صرفِ نظر اور بوجوہ اغماز کیا ہے۔

کتاب کے اختتامیےکے پہلے مضمون میں سیّدخالد کمال نے بنگلہ دیش میں بسنے اور اُردو بولنے والے بے وطن پاکستانیوں کے کرب اور المیے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اسی حصے کے دوسرے مضمون میں مترجم سلیم منصور خالد نے ’۳۰ لاکھ کے قتل کا افسانہ …‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی تحقیقی مقالے کا اضافہ کیا ہے ۔ علیحدگی پسند بنگالیوں نے پاکستانی فوج اور اُردو بولنے والے شہریوں پر یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور ہزاروں بنگالی خواتین کو بے آبرو کیا ہے، مگر غیر جانب دار صحافیوں اور خود مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہندستان کے فوجی کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑا تک نے اس مبالغہ آمیزی کی نفی کی ہے۔ اس طرح دیگر بہت سے غیر ملکی اور خود ہندستانی صحافیوں اور تحقیق کاروں نے بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام کی تردید کی۔

تاریخ کو مسخ کرنے والے اس جھوٹ کا مقصد پاکستان کی یک جہتی کی حامی جماعت اسلامی اور پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس جلتی آگ کو سرد ہوتا دیکھ کر ۲۰۱۰ء کے بعد، عوامی لیگ کی حکومت نے ۳۸سال بعد ’جنگی ٹریبونل ‘ جیسی ’نام نہاد عدالتوں‘ کے ذریعے جماعت اسلامی اور البدر کے بنگالی ہم وطنوں پر، جو ۱۹۷۱ء میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے ، مقدمے چلانے اور سزاے موت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے (اسی ظالمانہ عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں ۹۲سالہ پروفیسر غلام اعظم، سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جیل میں انتقال کر گئے)۔ دراصل جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ہونے والے تمام انتخابات میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اشارے دے رہی تھی۔ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں ان مظالم کی لہر نہ جانے کہاں رُکے گی۔ بہر حال صاحب ِمقالہ سلیم منصور خالد کی خواہش ہے کہ :’’ بنگلہ دیش: دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد، خود مختار، اسلامی اور خوش حال ملک کی حیثیت سے دنیا کے
نقشے پر سرفراز رہے‘‘۔
.یہ کتاب منشورات کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post خون اور آنسوئوں کا دریا-پروفیسر عبدالقدیر سلیم appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/09/%d8%ae%d9%88%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a2%d9%86%d8%b3%d9%88%d8%a6%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%d8%af%d8%b1%db%8c%d8%a7-%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%81%db%8c%d8%b3%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%82/feed/ 0 11047
عصرحاضر کی مجاہد خواتین-قاسم محمود احمد https://manshurat.pk/2024/12/09/%d8%b9%d8%b5%d8%b1%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%ac%d8%a7%db%81%d8%af-%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%aa%db%8c%d9%86-%d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85/ https://manshurat.pk/2024/12/09/%d8%b9%d8%b5%d8%b1%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%ac%d8%a7%db%81%d8%af-%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%aa%db%8c%d9%86-%d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85/#respond Mon, 09 Dec 2024 05:36:46 +0000 https://manshurat.pk/?p=11044 آج اخوان دنیا کا موضوع ہیں لیکن یہ تحریک اس سے پہلے کس کس مرحلے سے گزری، یہ حالیہ تاریخ کی ایک عجیب داستان ہے۔ اخون سے مسلسل قلبی تعلق اور ان کے بارے میں ہمارے لٹریچر کے آگاہی دینے سے ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی یہ پوری تاریخ ہماری آنکھوں […]

The post عصرحاضر کی مجاہد خواتین-قاسم محمود احمد appeared first on Manshurat.

]]>
آج اخوان دنیا کا موضوع ہیں لیکن یہ تحریک اس سے پہلے کس کس مرحلے سے گزری، یہ حالیہ تاریخ کی ایک عجیب داستان ہے۔ اخون سے مسلسل قلبی تعلق اور ان کے بارے میں ہمارے لٹریچر کے آگاہی دینے سے ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی یہ پوری تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے گزری ہے۔

حسن البنا کی شہادت، چھے قائدین کو پھانسی دیا جانا، اور پھر سیدقطب کی پھانسی، جیسے سب کل کی باتیں ہیں۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی دیارِعرب میں چند ماہ نے پاکستان کی تحریک اسلامی کو عالمِ عرب سے، وہاں کی تحریکات سے، شخصیات سے، اہم کتب، رسائل اور فکری لہروں سے آگاہ کیا۔ پھر یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں مختلف افراد کے ذریعے جاری رہا۔ ۱۹۵۲ء میں مصری انقلاب میں شاہِ فاروق کا تخت اُلٹ گیا، اور معروف ہے کہ ناصر اور اس کے ساتھیوں کی پشت پر اخوان تھے۔ ۲۰، ۲۵ سال میں اخوان نہ صرف مصر، بلکہ دوسرے عرب ممالک میں ایک قوت بن چکے تھے۔ لیکن پھر ناصر کے سازشی ذہن اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر ایک جلسے میں ناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچایا گیا اور اس کا الزام اخوان پر رکھ کر پورے ملک میں جیلیں اخوان سے بھر دی گئیں اور داروگیر کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو دراز ہی ہوتا گیا۔

اس دور میں اخوان پر اور ان کے قائدین پر کیا گزری، اس کی ایک جھلک ان مجاہد خواتین کے تذکرے میں ملتی ہے۔ یہ ان خواتین کی زندگی کی مختصر کہانیاں ہیں جو دراصل مصری حکومت کے اخوان اور مصری عوام کے ساتھ سلوک کا آنکھوں دیکھا بلکہ برتا ہوا مستند بیان ہے۔ عموماً یہ خواتین ان قائدین کی شریکِ حیات یا بہنیں، بیٹیاں ہیں جس میں یہ تفصیل آتی ہے کہ ان کے مرد جیلوں میں بند تھے لیکن مصر کی حکومت کے ان کے اور ان کے جاننے والوں کے ساتھ کتنے سخت جابرانہ رویے تھے۔ یہ اپنے بیٹوں، عزیزوں کی رہائی کے لیے ایک سے دوسری جیل پھرتی رہیں۔ شوہر کا جسدخاکی اس شرط پر باپ کو دیا گیا کہ تدفین میں کوئی عزیز شریک نہیں ہوگا۔ ایک گائوں کرداسہ کے شہدا کی لاشوںکو کئی روز تک دفن نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ مساجد بند کردی گئیں اور نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۹۴۸ء میں پہلی پابندی کے وقت جو اخوان گرفتار ہوئے اور عدم ثبوت پر رہا کردیے گئے تھے، ۱۹۶۰ء میں ان سب کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پھر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے چند جملوں میں پوری کتاب کی مکمل تصویر بیان کردی ہے: ’’یہ انتہا درجے کی جدوجہد کی مثالیں ہیں کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، غلبۂ دین کی جدوجہد کیسے جاری رکھنا ہے۔ شوہر شہادت پاجائیں، جیل میں قیدوبند کی اذیتیں سہ رہے ہوں، کمسن بچے گرفتار ہورہے ہوں، نوبیاہتا دولہا کو پولیس گھسیٹ کر لے جارہی ہو، گھروں کو اُلٹ پلٹ کیا جارہا ہو، جوان بیٹوں کو لہولہان کیا جارہا ہو،ہر حال میں  صبرواستقامت کا دامن تھامے رکھنا ہے، بلکہ آلِ یاسر کی طرح اقامتِ دین کی تحریک کو اپنے خون سے سینچنا ہے‘دیا۔
.یہ کتاب منشورات کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post عصرحاضر کی مجاہد خواتین-قاسم محمود احمد appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/09/%d8%b9%d8%b5%d8%b1%d8%ad%d8%a7%d8%b6%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%ac%d8%a7%db%81%d8%af-%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%aa%db%8c%d9%86-%d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%d8%a7%d8%ad%d9%85/feed/ 0 11044
کلام بنت مجتبیٰ مینا-وقاراحمد زبیری https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d9%86%d8%aa-%d9%85%d8%ac%d8%aa%d8%a8%db%8c%d9%b0-%d9%85%db%8c%d9%86%d8%a7-%d9%88%d9%82%d8%a7%d8%b1%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1%db%8c/ https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d9%86%d8%aa-%d9%85%d8%ac%d8%aa%d8%a8%db%8c%d9%b0-%d9%85%db%8c%d9%86%d8%a7-%d9%88%d9%82%d8%a7%d8%b1%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1%db%8c/#respond Fri, 06 Dec 2024 09:51:28 +0000 https://manshurat.pk/?p=11030 بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔ جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا […]

The post کلام بنت مجتبیٰ مینا-وقاراحمد زبیری appeared first on Manshurat.

]]>
بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔

جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اپنے عمل سے علم کے مثبت پہلوئوں کا اظہار بھی کیا جائے۔ اس لیے انھوں نے طویل عرصے تک نور کی ادارت کی، بتول میں مضامین لکھے، حریم ادب کی نشستوں میں نئی نسل کی رہنمائی بھی کی۔ تحریک کی ذمہ داریوں کو نبھاتی رہیں اور ہرجگہ کامیاب اور کامران رہیں۔

بنت مجتبیٰ مینا مکمل شاعرہ ہیں کیونکہ شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے احساسات کو خوب صورت الفاظ کی لڑی میں پرو کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والا بھی اس چبھن اور کسک کو محسوس کرتا ہے جو شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ مفہوم کی ادایگی اور اس کا ابلاغ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ انھوں نے تمام اصناف سخن کو پوری مہارت سے برتا ہے۔ انھوں نے حمدونعت کہی ہیں، قطعات لکھے ہیں، غزلیں اور نظمیں کہی ہیں لیکن ہمارے ہاں مروجہ انداز کی آزاد نظموں سے مکمل اجتناب برتا ہے۔

بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے بنت مجتبیٰ مینا کی شاعری ایک واضح مقصد کے لیے ہے اور وہ اپنے مقصد کے اظہار میں پوری طرح کامیاب ہیں، یعنی ان کی شاعری مقصدی ادب میں خوش گوار اضافہ ہے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی نعتوں میں بڑی دل سوزی اور عقیدت و احترام ہے۔ انھوں نے کہا ؎

کچھ ہوش نہیں رہتا جب وقت حضوری ہو

دیوانے سے دیوانے، دیوانے محمدؐ کے

ان کی چھوٹی بحرکی نعتیں خوب نہیں بہت خوب ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ غزل کی زیادہ کامیاب شاعرہ ہیں یا نظم کی۔ شاہدہ یوسف کے مطابق: ’’ان کی غزلوں میں ایک کربِ مسلسل ہے جو، ان کے احساس تنہائی، دل شکستگی اور درمندی کا آئینہ دار ہے۔ چند اشعار:

غمِ دوراں، غمِ ہجراں، غمِ جاناں، غمِ دل

اِک دنیا ہے یہاں، کہتے ہو تنہائی ہے

کچھ تو مجھ کو ملا

اِک دل بیتاب سہی

پھر کسی تازہ واردات کی خبر

غنچہ دل کو کیوں ہنسی آئی

ان کی نظم کے بارے میں کہا گیا: ’’سماجی اور معاشرتی المیوں سے مالا مال ہے‘‘۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی نظمیں تاریکیوں میں روشنی اور جبر میں اختیار و اعتبار کا پیغام دیتی ہیں۔ ’ہارسنگھار‘، ’صدقہ‘، ’رات گزر جائے گی‘، ’چاک گریباں‘، ’آواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن سے پُرآشوب حالات میں بھی جینے کا اور مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کی تمام نظموں میں مفہوم کی ادایگی اور مکمل ابلاغ نمایاں ہے۔ بطور مجموعی ان کی شاعری اُجالا پھیلانے والی شاعری ہے۔

منشورات نے اہتمام سے چھاپی ہے۔ سرورق پر خوب صورت جدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی داد دینی چاہیے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی صاحب زادی زہرا نہالہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی والدہ کے خوب صورت کلام کو زمانے کی دستبرد سے محفوظ کرلیا۔

The post کلام بنت مجتبیٰ مینا-وقاراحمد زبیری appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d9%86%d8%aa-%d9%85%d8%ac%d8%aa%d8%a8%db%8c%d9%b0-%d9%85%db%8c%d9%86%d8%a7-%d9%88%d9%82%d8%a7%d8%b1%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1%db%8c/feed/ 0 11030
چند عصری مسائل-حبیب الرحمٰن عاصم https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%86%d9%86%d8%af-%d8%b9%d8%b5%d8%b1%db%8c-%d9%85%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%84-%d8%ad%d8%a8%db%8c%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%b0%d9%86-%d8%b9%d8%a7%d8%b5%d9%85/ https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%86%d9%86%d8%af-%d8%b9%d8%b5%d8%b1%db%8c-%d9%85%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%84-%d8%ad%d8%a8%db%8c%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%b0%d9%86-%d8%b9%d8%a7%d8%b5%d9%85/#respond Fri, 06 Dec 2024 09:19:58 +0000 https://manshurat.pk/?p=11026 فقہی مسائل اور فتاویٰ کے حوالے سے جب بھی کسی کتاب کا تصور آتا ہے تو مشکل الفاظ، طویل جملے، بھاری بھرکم عبارتیں، جائز ہے، ناجائز ہے کی صورت میں عدالتی انداز کے حکم ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد جو کہ تعلیم، علومِ اسلامیہ، تقابل ادیان اور دعوت و ابلاغ میں […]

The post چند عصری مسائل-حبیب الرحمٰن عاصم appeared first on Manshurat.

]]>
فقہی مسائل اور فتاویٰ کے حوالے سے جب بھی کسی کتاب کا تصور آتا ہے تو مشکل الفاظ، طویل جملے، بھاری بھرکم عبارتیں، جائز ہے، ناجائز ہے کی صورت میں عدالتی انداز کے حکم ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد جو کہ تعلیم، علومِ اسلامیہ، تقابل ادیان اور دعوت و ابلاغ میں معروف مقام رکھتے ہیں، زیرتبصرہ کتاب میں رویتی اسلوب سے ہٹتے ہوئے عصری مسائل کا جواب دیا ہے اور عصرِحاضر کے ایک اہم تقاضے اور علمی ضرورت کو پورا کیا ہے۔

ڈاکٹر انیس احمد نے جس شجرِعلم کے سایے میں پرورش پائی، اس کی آبیاری سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی تھی جن کا داعیانہ انداز ان کے اظہارِ بیان پر غالب تھا۔ اس لیے آپ نے جب بھی کسی مسئلے کے جائز یا ناجائز کا فیصلہ سنایا تو پہلے پورے سلیقے سے معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے، مسائل کو احسن انداز میں سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کی۔ معاملے کے کسی جزو کی وضاحت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے دینی، معاشرتی اور سماجی پہلوئوں کا جائزہ بھی لیا، تاکہ سائل فتوے پر عمل کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرلے۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ طلاق ہوگئی، چھوڑ دو، اختیار کرلو، لیکن سائل کو ایک اچھا مسلمان بنانا، اسے بہتر معاشرتی زندگی کے لیے تیار کرنا اور معاشرے کا مفید اور کارآمد فرد بنانا انتہائی ضروری ہے، تاکہ سائل ذہنی طور پر قائل اور قلبی طور پر مطمئن ہوجائے۔ زیرنظر کتاب میں بیش تر مسائل کا جواب دیتے ہوئے ایسا ہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں سید مودودیؒ کے انداز کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

بعض مسائل کے حوالے سے احساس ہوتا ہے کہ اگر فقہی مراجع کا ذکر نسبتاً مفصل انداز میں آجاتا تو شاید فقہی مزاج رکھنے والوں کی تشفی زیادہ ہوجاتی۔ بیش تر مسائل کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے میں مختلف قسم کے تعصبات میں پلنے والے لوگ اپنی جہالت اور ذاتی اختلافات کی بنا پر اُن فتاویٰ کو خاطر میں نہیں لاتے جن میں بعض معروف فقہا کا حوالہ موجود نہ ہو، حالانکہ قرآن و سنت کا حوالہ اصل ہے اور فقہاے اُمت نے انھی ذرائع سے مسائل کو سمجھا اور سمجھایا ہے۔

کتاب میں جدید و قدیم دونوں طرح کے مسائل کا ذکر موجود ہے جو عصری ضرورت کے حوالے سے کتاب کی معنوی اہمیت افادیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ چند مرکزی موضوعات حسب ذیل ہیں: lبچوں کو فقہ کی تعلیم lشادی سے قبل ملاقاتیں lپریشان کن گھریلو مسائل کا حل lمشترکہ خاندانی نظام: چند عملی مسائل lمساجد میں خواتین کی شرکتlتحدید نسل اور تربیت اولاد lٹیلی فون پر دوستی اور ریڈیو پروگرام میں گفتگو lانشورنس کا متبادل lاسلامی بنکاری: چند ذہنی الجھنیں lمذہبی جماعتوں کی ناکامی lوقت اور صلاحیتوں کی تقسیم اور کارِ دعوت lآرمی میں رگڑا کی روایت l طبی اخلاقیات اور دواسازکمپنیاں۔ یہ فقہی مسائل ترجمان القرآن میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں، اور اب انھیں کتابی صورت میں یک جا شائع کیا گیا ہے۔کتاب خاص طور پر جدید مسائل سے دوچار نوجوانوں اور عام مسلمانوں کے لیے بہت مفید ہے۔
یہ منشورات پبلشرز کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post چند عصری مسائل-حبیب الرحمٰن عاصم appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%86%d9%86%d8%af-%d8%b9%d8%b5%d8%b1%db%8c-%d9%85%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%84-%d8%ad%d8%a8%db%8c%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%b0%d9%86-%d8%b9%d8%a7%d8%b5%d9%85/feed/ 0 11026
اسلامی فکروثقافت کی بنیادیں- ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر https://manshurat.pk/2024/12/06/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%81%da%a9%d8%b1%d9%88%d8%ab%d9%82%d8%a7%d9%81%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%86%db%8c%d8%a7%d8%af%db%8c%da%ba-%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d8%a7%d9%86%db%8c/ https://manshurat.pk/2024/12/06/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%81%da%a9%d8%b1%d9%88%d8%ab%d9%82%d8%a7%d9%81%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%86%db%8c%d8%a7%d8%af%db%8c%da%ba-%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d8%a7%d9%86%db%8c/#respond Fri, 06 Dec 2024 09:11:32 +0000 https://manshurat.pk/?p=11020 اسلام سے متعلق، مستشرقین کی تحقیقات میں یہ چیز بہت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسلام ایک علاقائی، نسلی اور لسانی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ عربوں کا مذہب ہے اور عرب ثقافت ہی اس کی بنیاد ہے___ یہ ’تحقیق‘ پیش کر کے، بعض مستشرقین سوال اُٹھاتے ہیں کہ یہ قدیم شریعت جدید دور میں […]

The post اسلامی فکروثقافت کی بنیادیں- ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر appeared first on Manshurat.

]]>
اسلام سے متعلق، مستشرقین کی تحقیقات میں یہ چیز بہت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسلام ایک علاقائی، نسلی اور لسانی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ عربوں کا مذہب ہے اور عرب ثقافت ہی اس کی بنیاد ہے___ یہ ’تحقیق‘ پیش کر کے، بعض مستشرقین سوال اُٹھاتے ہیں کہ یہ قدیم شریعت جدید دور میں کس طرح قابلِ عمل ہوسکتی ہے؟

زیرتبصرہ کتاب مستشرقین کے پیدا کردہ اسی ابہام اور تشکیک کو دُور کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت جن بنیادی عناصر سے تشکیل پاتی ہے، قرآن کی روشنی میں اُن کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایسے مصنّفین کی تصحیح کی کوشش کی ہے جو اسلامی ثقافت کو بھی دیگر ثقافتوں پر قیاس کرتے ہیں، اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اسلامی ثقافت کسی معاشرتی ارتقا کی بنیاد پر پروان نہیں چڑھی ہے، بلکہ اس کی جڑیں اُن آفاقی اقدار میں ہیں جو کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت قیامت تک کے لیے رکھتی ہیں۔

اسلامی فکروثقافت کی ان قرآنی بنیادوں کو علم و تفقہ، وحیِ الٰہی، مقاصد شریعت و انسانیت، ذکرو فکر اور تزکیہ و تدبر کے عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں جو اس فکروثقافت کا تعارف بھی ہیں اور اس کا ڈھانچا بھی۔ مصنف نے ایک نکتے کو دوسرے سے مربوط کر کے بہت جامع انداز میں زیربحث موضوع کو سمیٹا ہے۔ ’پیش لفظ‘ میں موضوع پر اظہارِ خیال کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ جدید ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں فراہم ہوگیا ہے۔
.یہ منشورات پبلشرز, کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post اسلامی فکروثقافت کی بنیادیں- ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/06/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%81%da%a9%d8%b1%d9%88%d8%ab%d9%82%d8%a7%d9%81%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%a8%d9%86%db%8c%d8%a7%d8%af%db%8c%da%ba-%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d8%a7%d9%86%db%8c/feed/ 0 11020