منشورات Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/منشورات/ Manshurat Tue, 09 Sep 2025 07:47:43 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.8.3 https://manshurat.pk/wp-content/uploads/2024/01/cropped-Man_Logo_New-1-32x32.jpg منشورات Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/منشورات/ 32 32 228176289 عبداللّٰہ شاہ ہاشمی-سفر بلادِ غرب کے https://manshurat.pk/2025/03/06/%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%84%d9%91%d9%b0%db%81-%d8%b4%d8%a7%db%81-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1-%d8%a8%d9%84%d8%a7%d8%af%d9%90-%d8%ba%d8%b1%d8%a8-%da%a9%db%92/ https://manshurat.pk/2025/03/06/%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%84%d9%91%d9%b0%db%81-%d8%b4%d8%a7%db%81-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1-%d8%a8%d9%84%d8%a7%d8%af%d9%90-%d8%ba%d8%b1%d8%a8-%da%a9%db%92/#respond Thu, 06 Mar 2025 05:52:17 +0000 https://manshurat.pk/?p=11456 سفر بلادِ غرب – محمد صغیر قمر کا منفرد سفرنامہ، مسئلہ کشمیر کی عالمی ترجمانی کے ساتھ منشورات کے تحت شائع ہونے والا محمد صغیر قمر کا سفرنامہ سفر بلادِ غرب ایک روایتی رودادِ سفر نہیں بلکہ ایک مقصدی اور معلوماتی ادبی کاوش ہے، جو قاری کو نہ صرف مختلف ممالک کی سیر کراتا ہے […]

The post عبداللّٰہ شاہ ہاشمی-سفر بلادِ غرب کے appeared first on Manshurat.

]]>
سفر بلادِ غرب – محمد صغیر قمر کا منفرد سفرنامہ، مسئلہ کشمیر کی عالمی ترجمانی کے ساتھ منشورات کے تحت شائع ہونے والا محمد صغیر قمر کا سفرنامہ سفر بلادِ غرب ایک روایتی رودادِ سفر نہیں بلکہ ایک مقصدی اور معلوماتی ادبی کاوش ہے، جو قاری کو نہ صرف مختلف ممالک کی سیر کراتا ہے بلکہ اُن کے تاریخی، معاشرتی اور ثقافتی پس منظر سے بھی روشناس کراتا ہے۔

یہ سفرنامہ ایک سہ رکنی وفد کے پانچ ممالک کے دورے پر مبنی ہے، جس میں صغیر قمر، سردار اعجاز افضل خان اور پروفیسر نذیر احمد شال شامل تھے۔ ان کا مقصد مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا تھا۔ جرمنی، ناروے اور اسپین کے سفر کے دوران ان حضرات نے کشمیری و پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں، دانشوروں اور بااثر افراد سے رابطے قائم کیے اور مسئلہ کشمیر کی حساسیت کو اُجاگر کیا۔

کتاب کے پیش لفظ میں سعودی عرب اور سویڈن کے دوروں کا بھی ذکر ہے، مگر اصل مواد میں ان ممالک کی تفصیلات موجود نہیں، جو ایک قابلِ توجہ پہلو ہے، خصوصاً ناروے کے ساتھ سویڈن کا ذکر ہونا زیادہ مناسب ہوتا۔

صغیر قمر کا اسلوب بے ساختہ، سادہ مگر مشاہدات سے بھرپور ہے۔ وہ زیرِ سیاحت ممالک کے ماحول، معاشرت اور تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں، جس سے ہر منظر ایک مکمل پس منظر کے ساتھ قاری کے سامنے آتا ہے۔ خاص طور پر اسپین کے باب میں تاریخی احوال کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے، اگرچہ مصنف کے ذاتی مشاہدات قدرے کم محسوس ہوتے ہیں۔

سفر بلادِ غرب ایک ایسا سفرنامہ ہے جو مقصد، مشاہدہ، تاریخ اور ثقافت کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہی مقصدی پہلو اسے عام سفرناموں سے ممتاز کرتا ہے۔ اردو ادب کے قارئین کے لیے یہ ایک معلوماتی، فکری اور ادبی خزانہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

The post عبداللّٰہ شاہ ہاشمی-سفر بلادِ غرب کے appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2025/03/06/%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d9%84%d9%91%d9%b0%db%81-%d8%b4%d8%a7%db%81-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1-%d8%a8%d9%84%d8%a7%d8%af%d9%90-%d8%ba%d8%b1%d8%a8-%da%a9%db%92/feed/ 0 11456
تذکرہ تابعینؒ-عبدالرحمن رافت پاشا https://manshurat.pk/2025/03/06/%d8%aa%d8%b0%da%a9%d8%b1%db%81-%d8%aa%d8%a7%d8%a8%d8%b9%db%8c%d9%86%d8%92-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%86-%d8%b1%d8%a7%d9%81%d8%aa-%d9%be%d8%a7%d8%b4%d8%a7/ https://manshurat.pk/2025/03/06/%d8%aa%d8%b0%da%a9%d8%b1%db%81-%d8%aa%d8%a7%d8%a8%d8%b9%db%8c%d9%86%d8%92-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%86-%d8%b1%d8%a7%d9%81%d8%aa-%d9%be%d8%a7%d8%b4%d8%a7/#respond Thu, 06 Mar 2025 05:03:25 +0000 https://manshurat.pk/?p=11453 تذکرہ تابعینؒ ‘عبدالرحمن رافت پاشا‘ ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۷۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق صحابہ کرامؓ اُمت محمدیہؐ کے بہترین لوگ ہیں— اور ان کے بعد تابعین عظام کا درجہ ہے۔ تابعینؒ کے بارے میں رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان […]

The post تذکرہ تابعینؒ-عبدالرحمن رافت پاشا appeared first on Manshurat.

]]>
تذکرہ تابعینؒعبدالرحمن رافت پاشا‘ ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۷۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔
ایک حدیث نبویؐ کے مطابق صحابہ کرامؓ اُمت محمدیہؐ کے بہترین لوگ ہیں— اور ان کے بعد تابعین عظام کا درجہ ہے۔ تابعینؒ کے بارے میں رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی (کامیابی کی) خوشخبری ہے۔

اس کتاب میں ۲۹ جلیل القدر تابعینؒ کا تذکرہ شامل ہے جن میں سے بعض تو اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی تاریخ میں بہت نامور ہوئے ہیں‘ مثلاً عطا بن ابی رواحؒ، عروہ بن زبیرؒ، حسن بصریؒ، قاضی شریح ؒ،رجا بن حیوہؒ، سعید بن مسیبؒ،عمر بن عبدالعزیزؒ،احنف بن قیسؒ اور امام ابوحنیفہؒ وغیرہ۔

مصنف نے تابعین کی سوانح نہیں لکھی‘ نہ ان کی حیاتِ مستعار کے سنین وار کوائف سے تعرض کیا ہے بلکہ ان کے طرزعمل‘ بعض واقعات یا چند رویوں کی روشنی میں ان کی سیرت کے پُرتاثیرپیکر تراشے ہیں۔ یہی انفرادی خصائص کسی شخصیت کے کردار کو عام انسانوں کے درمیان منفرد‘ تابناک اور زندئہ جاوید بناتے ہیں۔ چنانچہ ان کی حیاتِ جاوداں آج صدیوں بعد بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان ۲۹ کرداروں میں طرح طرح کے نمونے ملتے ہیں۔ کوئی حق گوئی و بے باکی کا نمونہ ہے‘ کوئی مجسم تقویٰ ہے‘ کسی نے کفار کے خلاف جہاد و معرکہ آرائی کو شعار حیات بنا لیا ہے‘ ۔

اصل کتاب کے مصنف ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا ہیں لیکن مترجم اور نہ ناشر نے بتایا کہ پاشا مرحوم کون تھے؟ کس ملک یا خطے کے باشندے تھے؟ کس زمانے کے آدمی تھے؟ ان کا علمی مقام و مرتبہ اور کارنامہ کیا ہے؟ غریب مصنف کا تعارف ایک آدھ صفحے میں دینا مناسب تھا۔

The post تذکرہ تابعینؒ-عبدالرحمن رافت پاشا appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2025/03/06/%d8%aa%d8%b0%da%a9%d8%b1%db%81-%d8%aa%d8%a7%d8%a8%d8%b9%db%8c%d9%86%d8%92-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%86-%d8%b1%d8%a7%d9%81%d8%aa-%d9%be%d8%a7%d8%b4%d8%a7/feed/ 0 11453
چنار کہانی-عمران ظہور غازی https://manshurat.pk/2025/03/05/%da%86%d9%86%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%b8%db%81%d9%88%d8%b1-%d8%ba%d8%a7%d8%b2%db%8c/ https://manshurat.pk/2025/03/05/%da%86%d9%86%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%b8%db%81%d9%88%d8%b1-%d8%ba%d8%a7%d8%b2%db%8c/#respond Wed, 05 Mar 2025 07:33:03 +0000 https://manshurat.pk/?p=11439 کتاب چنار کہانی ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ان ہزاروں کہانیوں کا نچوڑ ہے جنہیں صغیر قمر نے نہایت محبت، توجہ اور فنکارانہ انداز میں لفظوں کا روپ دیا ہے۔ ان کی تحریر کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ براہِ راست قارئین کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے الفاظ اور جملے […]

The post چنار کہانی-عمران ظہور غازی appeared first on Manshurat.

]]>
کتاب چنار کہانی ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ان ہزاروں کہانیوں کا نچوڑ ہے جنہیں صغیر قمر نے نہایت محبت، توجہ اور فنکارانہ انداز میں لفظوں کا روپ دیا ہے۔ ان کی تحریر کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ براہِ راست قارئین کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے الفاظ اور جملے استعمال کرتے ہیں جو دلوں کے تار چھیڑ دیتے ہیں، آنکھوں کو بار بار نم کر دیتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

مصنف کی اوّل و آخر پہچان کشمیر اور جہادِ کشمیر ہے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اپنے قلم کے ذریعے اس مقصد کی آبیاری کرتے آ رہے ہیں۔ اسی لیے چنار کہانی میں کشمیر، افغانستان اور فلسطین کے ساتھ ساتھ دیگر مقامات پر امتِ مسلمہ کے زخموں اور جدوجہد کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ تحریریں اس سے قبل ’’جہاد کشمیر‘‘ اور روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں شائع ہونے والے کالمز کی شکل میں سامنے آ چکی ہیں۔

منشورات کی یہ شاندار پیشکش صرف ایک کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری سفر ہے جو قاری کے ایمان، وطن اور اقدار کے ساتھ وابستگی کو گہرا کرتا ہے۔ آج جب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا روشن خیالی کے نام پر دین و مذہب سے بیزاری پھیلا رہا ہے، یہ کتاب نوجوان نسل اور ہر طبقۂ فکر کو نئی راہیں دکھاتی ہے۔

اسلامی کتب میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب نہ صرف مطالعہ کے شوقین افراد بلکہ قلم و فکر سے وابستہ ہر شخص کے لیے قیمتی سرمایہ ہے۔

The post چنار کہانی-عمران ظہور غازی appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2025/03/05/%da%86%d9%86%d8%a7%d8%b1-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d8%b8%db%81%d9%88%d8%b1-%d8%ba%d8%a7%d8%b2%db%8c/feed/ 0 11439
صرف پانچ منٹ-ہبہ الدباغ https://manshurat.pk/2024/12/12/%d8%b5%d8%b1%d9%81-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d9%85%d9%86%d9%b9-%db%81%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%d8%a8%d8%a7%d8%ba/ https://manshurat.pk/2024/12/12/%d8%b5%d8%b1%d9%81-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d9%85%d9%86%d9%b9-%db%81%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%d8%a8%d8%a7%d8%ba/#respond Thu, 12 Dec 2024 09:44:51 +0000 https://manshurat.pk/?p=11066 شامی اخوان المسلمون کی خونیں سرگزشت (ہبہ الدباغ کی خودنوشت ’صرف پانچ منٹ‘ کامطالعہ) محمد رضی الاسلام ندوی سرزمینِ شام، جس سے اسلامی تاریخ کی عظمتِ رفتہ وابستہ ہے، گزشتہ دو سال سے خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔ یہاں انسان نما وحشی درندے ظلم و جبر ، قتل وغارت گری اور انسانیت سوزی کی […]

The post صرف پانچ منٹ-ہبہ الدباغ appeared first on Manshurat.

]]>
شامی اخوان المسلمون کی خونیں سرگزشت (ہبہ الدباغ کی خودنوشت ’صرف پانچ منٹ‘ کامطالعہ)

محمد رضی الاسلام ندوی

سرزمینِ شام، جس سے اسلامی تاریخ کی عظمتِ رفتہ وابستہ ہے، گزشتہ دو سال سے خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔ یہاں انسان نما وحشی درندے ظلم و جبر ، قتل وغارت گری اور انسانیت سوزی کی بدترین داستانیں رقم کررہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ساٹھ ﴿۶۰﴾ہزار سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، بستیوں کی بستیاں ویران ہوگئی ہیں اور لاکھوں افراد ہجرت کرکے پڑوسی ممالک میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہبہ الدباغ کی خودنوشت ’خمس دقائق و حسب‘ ، جس کا اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے، دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ شام کے اسلام پسند عوام پر انسانیت سوز مظالم کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے، بلکہ گزشتہ چالیس سال سے برابر جاری ہے۔ اس کا آغاز شام کے موجودہ حکمراں کے باپ حافظ الاسد نے کیاتھا۔
اس کا تعلق اشتراکی نظریات کی حامل بعث پارٹی سے تھا۔ اسی طرح وہ گم راہ علوی نصیری فرقے سے تعلق رکھتاتھا۔ اس نے اپنے عہدِ حکومت میں مغربی کلچر اور اشتراکیت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی اور اقتدارپر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے فوج اور انتظامیہ میں علویوں کو بھردیا، جب کہ شام کی غالب اکثریت سنّی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیادیں بہت گہری تھیں اور وہ غیراسلامی کلچر اور اقلیتی غلبے سے سخت متنفر تھے۔

شامی اخوان المسلمون ، جن کی سرگرمیاں مصر میں اس تحریک کی تاسیس ﴿۱۹۲۸ء﴾ کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں، حافظ الاسد کے منصوبوں اور عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر جگہ اس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس لئے حافظ الاسد ان کی سرکوبی کے بہانے ڈھونڈتا رہتاتھا۔ ۱۹۸۰ء میں سنّی مسلمانوں اور نصیریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشمکش برپا ہوئی تو بعثی حکومت نے اس کا ذمہ دار اخوان المسلمون کو قرار دے کر ان پر پابندی عائد کردی اور یہ قانون منظور ہواکہ اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی ہے۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر ان کے ارکان و وابستگان کی پکڑدھکڑ شروع ہوئی۔ جس پر بھی اخوانی ہونے کا شبہ ہوا اسے داخلِ زنداں کردیاگیا، جیلوں میں ان کے ساتھ بدترین تشدد کیاگیا، ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے گولیوں سے بھون دیاگیا، جیلوں میں وقتاً فوقتاً قیدیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ قتل و غارت گری کا نقطۂ عروج وہ واقعہ ہے جو ۲/فروری ۱۹۸۲ء کو شہر حماس میں پیش آیاتھا۔ اس شہر کو اخوان المسلمون کا گڑھ قرار دے کر اس کا محاصرہ کرلیاگیا اور ٹینکوں، توپوں، بکتربند گاڑیوں اوربھاری اسلحے کے ساتھ ہلّہ بول دیاگیا۔ شہر میں زبردست تباہی مچائی گئی، پورے پورے محلّے ان کے مکینوں کے ساتھ زمین بوس کردیے گئے۔ اٹھاسی ﴿۸۸﴾ مسجدیں اور تین ﴿۳﴾ چرچ بالکل منہدم ہوگئے۔ شہر کا محاصرہ ستائیس ﴿۲۷﴾ روز تک جاری رہا، تقریباً چالیس ہزار افراد کو گولیوں سے بھون کر اجتماعی قبروں میں دفن کردیاگیا، پندرہ ہزار افراد کا کچھ پتا نہ چلا، گرفتاریوں ، ایذارسانیوں اور تشدد و بربریت کا یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔ ہبہ الدباغ کی یہ خودنوشت اُسی دور میں شام کے عقوبت خانوں میں اخوان المسلمون کے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر توڑے جانے والے دل دوز والمناک مظالم کی مختصر روداد ہے۔

ہبہ کا تعلق حماس کے ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ وہ ماں باپ، سات بھائیوں اور چار بہنوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے ماں باپ کوئی سیاسی وابستگی رکھتے تھے، نہ خود ہبہ کسی پارٹی کی ممبر تھیں۔ صرف ان کاایک بھائی ﴿صفوان﴾ اخوان المسلمون کا سرگرم کارکن تھا۔ اخوان پر پابندی عائد کردیے جانے کے بعد ان کی پکڑدھکڑ شروع ہوئی تو جو لوگ پڑوسی ملک اردن نکل جانے میں کامیاب ہوگئے ان میں وہ بھی تھا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں ہبہ حمات چھوڑکر دمشق چلی گئیں اور وہاں یونی ورسٹی کے شریعہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ رہائش کے لئے انھوں نے چند ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ مل کر ایک مکان کرائے پر حاصل کیا۔ ابھی ایک سال بھی پورا نہ ہواتھا اور امتحان شروع ہونے والا تھا کہ ۱۹۸۰ء کی آخری تاریخ میں نصف شب خفیہ محکمے کے اہل کاروں نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا اور انھیں اور ساتھ رہنے والی دو لڑکیوں ﴿ماجدہ اور ملک﴾ کو اپنے ساتھ تفتیشی دفتر لے گئے۔ لے جاتے وقت تو انھوں نے کہاتھا کہ صرف پانچ منٹ میں تفتیش کرکے واپس بھیج دیں گے، لیکن ان لڑکیوں کو عقوبت خانوں میں نو سال تک تعذیب و تشدد کے جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔

ہبہ پر الزام لگایاگیاکہ وہ اخوان کی آرگنائزر ہے، اس کا ترجمان مجلہ ’النذیر‘ بانٹاکرتی ہے، سید قطب کے افکار پر مشتمل درسِ قرآن دیتی ہے، اپنے پاس اسلحہ رکھتی ہے وغیرہ۔ حالانکہ وہ ان تمام الزامات سے بری تھیں۔ ان کا اگر کوئی جرم تھا تو بس یہ کہ وہ ایک اخوانی کی بہن تھیں۔ ان برسوں میں ہبہ پر کیاکچھ بیتی، اس کا تذکرہ انھوں نے تفصیل سے اپنی اس خودنوشت میں کیا ہے۔ اس کاخلاصہ انھوں نے کتاب کے مقدمے میں ان الفاظ میں بیان کیاہے:

میں اتنا عرصہ جیل کی کال کوٹھری میں اپنے بھائی کی ’رہین‘ کے طورپر رہی، جو پرجوش سیاسی کارکن تھا۔ میری زندگی کے بہترین سال قاتل وحشیوں کی نذر ہوگئے۔ میرے اعضا شل ہوگئے اور میری روح نے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لی۔ صرف ایک افترا کے سبب جو مجھ پر باندھا گیا. میں نوبرس تک جیل کے ایک سیل سے دوسرے سیل، ایک بلاک سے دوسرے بلاک اور ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل ہوتی رہی۔ نوبنجربرس. ان برسوں میں انسانی رحم کا ہر دروازہ مجھ پر بند کردیاگیا۔ ان کی سزاؤں نے میرے اندر اٹھنے والی ہر امید کا دم توڑدیا اور بنی نوع انسان سے متعلق ادنیٰ سی آس بھی معدوم ہوگئی، صرف اللہ سے امید زندہ رہی. میں شام کی حکومتی جیلوں کے جہنم میں نوبرس تک بلاقصور کسی اور کی رہین کے طورپر جلتی رہی۔ میں بتانہیں سکتی کہ عمرِ عزیز کے نوبرس اس ملعون نظام میں کس طرح بیتے، جو کچھ پیش آیا اس کی حقیقی تصویر گری سے یہ قلم عاجز ہے۔‘‘ ص۲۲-۲۵

یہ صرف ایک خاتون کے ایامِ اسیری کی آپ بیتی نہیں ہے، بلکہ اس میں بے شمار معصوم خواتین کی داستانِ الم آگئی ہے۔ ان خواتین کا جرم اگر کچھ تھاتو بس یہ کہ ان میں سے کوئی کسی اخوانی کی ماں تھی، کسی کی بہن، کسی کی بیوی اور کسی کی بیٹی، یا انھوں نے کسی اخوانی کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی۔ اس خودنوشت میں مصنفہ نے ان میں سے بہت سی خواتین کا تذکرہ نام بہ نام کیا ہے، مثلاً:

٭ الحاجۃ مدیحہ، چالیس کے پیٹے میں تھیں، بالکل ان پڑھ، مگر وہ حلب کی مشہور شخصیت تھیں، ان کاجرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کا ایک حصہ ہاسٹل کی طرح بنارکھاتھا، جس میں رہنے والوں میں سے کچھ لوگ حکومت کو مطلوب تھے۔

٭ الحاجۃ ریاض، چالیس برس کی، غیرشادی شدہ، سیدھی سادی خاتون۔ الزام یہ کہ انھوںنے اخوان کے مصیبت زدہ بعض خاندانوں تک کچھ بہی خواہوں کی دی ہوئی رقم پہنچائی تھی۔

٭ عائشہ کا تعلق حلب سے تھا اور پیشے سے ڈاکٹر تھی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کے خلاف سرگرم کچھ زخمی نوجوانوں کا علاج کردیاتھا۔

٭ مُنیٰ، پینتیس چھتیس سال کی خاتون، تین بچوں کی ماں۔ اس نے ایک اخوانی کو پناہ دے دی تھی، اس جرم میں اسے اور اس کی بہن، بھائی اور باپ کو گرفتار کرلیاگیاتھا۔

٭ حلیمہ، پینتیس برس کی دیہاتی خاتون، پانچ بچوں کی ماں، جن کی عمریں چار سے نو برس کے درمیان تھیں، اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کو مطلوب کچھ افراد کو اپنے گھر میں چھپارکھاتھا۔

٭ منتہیٰ ، سولہ برس کی دوشیزہ، شوہر کوحکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے الزام میں قتل کردیاگیا۔ خفیہ پولیس نے اس کی شیرخواربچی کو پرے پھینکا اور اسے گرفتار کرکے داخلِ زنداں کردیا۔

٭ غزوہ، حمات کی رہنے والی ماہرِ دنداں خاتون۔ جرم یہ کہ اس نے ایک گھر خریدنے میں اخوانی نوجوانوں کی مدد کی تھی۔

٭ مطیعہ، عمر تقریباً چالیس سال، چار بچوں کی ماں، شوہر اخوان کے حامیوں میں سے تھے، گرفتاری سے بچنے کے لئے وہ فرار ہوگئے تو اسے پکڑلیاگیا۔ وہ اس وقت حمل سے تھی، دورانِ اسیری جیل میں اس کے یہاں ولادت ہوئی۔

٭ ام ہیثم، شوہر اور چار بچوں کے ساتھ اخوان کے حامیوں میں سے ایک کے گھر کرائے پر رہتی تھیں۔ خفیہ پولیس نے چھاپہ مارا تو سب کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کرلیا، پھر شوہر کو اسی قیدخانے میں قتل کردیاگیا۔

٭ نجویٰ، حلب کے میڈیکل کالج میں سال دوم کی طالبہ ۔ اس کاجرم یہ تھا کہ وہ ایک اخوانی کی منگیتر تھی۔

تفتیشی مراکز اور جیلوں میں ان خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور وحشت وبربریت کا جو ننگا ناچ دکھایاگیا، وہ خون کے آنسو رُلانے والا ہے۔ کیا کوئی انسان اس حد تک نیچے گرسکتا ہے۔ ہبہ الدباغ نے اپنی خودنوشت میں اپنے ساتھ پیش آئے ظلم و تشدد کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ایک اہل کار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹکاکر میری گردن، کلائیاں، پیٹ، گھٹنے اور پائوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکادیا۔ میرے پائوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکاتھا، صرف جرّابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔ اہل کار پوری قوت اور غضب سے چلّایا: سر، دیکھئے، آپ نے نوٹ کیا؟ یہ کہتی ہے، یہ اخوانی نہیں، لیکن اس نے اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ رکھا ہے ان ہی کی طرح، اس ٹکٹکی پر بھی اس کا ستر قائم ہے۔‘‘ ص ۵۳

تفتیش کاایک اور انداز ملاحظہ کیجئے

’’تفتیشی افسر کے ہاتھ میں مربع شکل کا بجلی کا بورڈ اور پلگ تھا اور ایک ہاتھ نما چیز تھی، جس پر کلپ لگے ہوئے تھے۔ اس نے کلپ میری انگلی کے ساتھ لگاکر اس میں کرنٹ چھوڑدیا اور ڈنڈے سے میرے پائوں کے درمیان میں ضرب لگائی، ایسا لگاکہ میرے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ وہ میری چیخوں کو خاطر میں لائے بنا بولا:

’’ہوں. تمھیں بکواس کرنی پڑے گی۔

میں چلائی: میں کہہ چکی ہوں، میرے پاس اعتراف کرنے کو کچھ نہیں۔

وہ سرد مہری سے بولا: تم نے دیکھانہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر ہوتا ہے۔

میں نے کہا: اگر ایسا ہی ہوتو بھی کیا میں ان چیزوں کااعتراف کرلوں جو میں نے نہیں کیا۔

اس پر وہ بولا: تم جھوٹ کہہ رہی ہو اور ہم سے چھپارہی ہو۔ تمھیں ابھی ہمارے ساتھ جانا ہوگا اور اس گھر کی نشان دہی کرنی ہوگی جہاں تمھارا بھائی اور اس کے ساتھی رہتے ہیں، ورنہ ہم تجھے ہلاکت تک پہنچادیںگے۔ میرے انکار پر تعذیب کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پائوںپر کوڑے برسانے لگا۔ پائوں پر ضرب پڑنے سے پہلے اس کی سنسناہٹ سنائی دیتی۔ ایک اور اہل کار اپنے بید کے ساتھ تعذیب دینے میں شریک ہوگیا۔ دوسرا اہل کار میرے سر کی جانب کھڑا ہوکر میری انگلیوں پر نئے سرے سے کرنٹ لگانے لگا۔ اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ اس کو الفاظ میں نہیں بیان کرسکتی۔ شروع میں چیختی رہی اور میری زبان پر ’یا اللہ‘ کا کلمہ جاری رہا، لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میرے بس میں نہ رہا۔ میں سرپٹختی رہی اور مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا۔‘‘ ص ۵۳-۵۵

تفتیشی سیل میں ٹارچر کے ایسے ہی وحشیانہ طریقے دیگر خواتین کے ساتھ بھی اختیار کئے جاتے تھے۔ ہبہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب میں جا بہ جا کیا ہے۔ ان کے مطابق کپڑے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے۔ تھپڑوں، گھونسوں، کوڑوں اور ڈنڈوں کی بارش کی جاتی، انگلیوں پر شدید ضربیں لگائی جاتیں اور ناخن کھینچ کر اکھاڑدیے جاتے، سگریٹ سلگاکر پوشیدہ اور نازک اعضا کو جلایا جاتا، بالوں کو پکڑکر کھینچاجاتا اور سرکو دیوار اور زمین پر پٹخاجاتا، ٹکٹکی پر باندھ کر الٹا لٹکادیا جاتا، بے ہوش ہونے پر پوری قوت سے پانی انڈیلا جاتا، جس سے بسااوقات قیدیوں کے کان کے پردے پھٹ جاتے، بجلی کے کرنٹ لگائے جاتے۔ اس طرح کے اور بھی بے شمار وحشیانہ طریقے تھے جن کے ذریعے ملزم کو ناکردہ جرم قبول کرنے پر مجبور کیاجاتاتھا۔ جرم نہ قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسلسل ان اذیتوں سے دوچار رہے اور جرم قبول کرنے کا نتیجہ لازماً سزائے موت تھی۔

یہ تو خواتین پر مظالم کا حال تھا۔ اخوان کے مردوں کا حال اور بھی بُرا تھا۔ وہ ان جلاّدوں کی نظر میں کسی ہم دردی کے مستحق نہ تھے۔ ان کو سخت سے سخت اذیتیں دینے کی کھلی چھوٹ انھیں حاصل تھی۔ انھیں ہر طرح سے مشقِ ستم بنایا جاتا، ان کے ساتھ جانوروں جیسا، بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک کیاجاتا۔ کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’بلاک میں قیدیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اگر ایک خاتون کروٹ لینا چاہتی تو پورے بلاک کی خواتین کو حرکت دینی پڑتی۔‘‘ ﴿ص۳۸﴾’ ’اگر ہم اپنی حالت کا مقابلہ نوجوان مرد قیدیوں سے کرتے تو وہ بالفعل جہنم میں رہ رہے تھے۔ جب بلاک میں خواتین قیدیوں کی تعداد دس سے زیادہ ہوجاتی اور ہم دم گھٹنے کی شکایت کرتے، اس وقت ان کے ایک ایک بلاک میں پچاس سے زیادہ گرفتارانِ بلا ہوتے اور انھیں دن میں بھی سانس لینا دشوار محسوس ہوتا اور رات کو سونے کے لئے پائوں دیوار کے ساتھ اونچے کرکے صرف کمر زمین پر رکھ کر سوتے اور اس میں بھی انھیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔‘‘ ص ۱۱۵

’’ایک روز اہل کاروں نے ایک مسکین کو کمرۂ تعذیب سے نکال کر ہمارے بلاک کے سامنے ڈالا، تاکہ اسے دوسری جگہ منتقل کرکے باقی کسر پوری کرسکیں۔ اس کاچہرہ اور بدن زخموں سے چور تھا۔ پیاس کی شدت سے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور جسم سے خون رِس رہاتھا۔ وہ گڑگڑاکر پانی کاایک گھونٹ مانگ رہاتھا، لیکن اسے جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد ہم نے کچھ پانی بلاک سے باہر زمین پر بہادیا اور اس نے زمین سے چاٹ لیا۔‘‘ص ۱۲۰

’’ایک دفعہ ہم نے دیکھاکہ وہ ایک دیہاتی کو پکڑلائے اور اسے برہنہ کردیا۔ اہل کار دونوں جانب کھڑے ہوگئے اور ڈنڈوں اور لاتوں سے اس کی درگت بنانے لگے۔ وہ اسے ہینڈزاپ کرواکر کبھی ایک طرف بھگاتے اور کبھی دوسری طرف۔ وہ کبھی تیزی سے بھاگتا اور کبھی سست پڑجاتا، حتیٰ کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ پھر وہ اسے اٹھاکر غسل خانوں میں لے گئے۔ وہ کبھی اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالتے اور کبھی تیزگرم۔ وہ مسکین بڑی بے بسی سے چیختا چلاّتا رہا، کسی کو اس پر رحم نہ آیا، گویا وہ بھیڑبکری ہو قصّابوں کے بیچ میں۔‘‘ ص ۱۱۹

اس کی تفصیل خود ہبہ کی زبانی سنیے

ان سب کو مارنے کے بعد میری بیس سالہ بہن ظلال کو بھی شہید کردیا۔ میرا چودہ برس کا بھائی عامر اور بارہ برس کا بھائی ماہر بھی ان ہی حادثات کے دوران شہید ہوئے۔ سب نے اکٹھے ہی اپنی نذر پوری کردی اور ان کے لاشے یوں ہی بے گورو کفن پڑے رہے۔ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے حلب میں میرے بھائی وارف، جس کی عمر اٹھارہ برس تھی، کی شہادت کاسانحہ پیش آچکاتھا۔ اس طرح مجھے والدین اورآٹھ بہن بھائیوں کی شہادت کی خبر ایک ساتھ ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خبر کا مجھ پر ایسا اثر نہ ہوا جیسا میری ساتھی قیدی خواتین سمجھ رہی تھیں۔ اللہ نے مجھے اس ناگہانی خبر پر صبر اور حوصلہ دیا،کیوں کہ یہ سب ان شاء اللہ شہادت کے درجے پر فائز ہوں گے اور شہادت کی آرزو تو ہر مسلمان کرتا ہے۔‘‘ ص۱۷۱-۱۶۷، بہ تلخیص

مصر میں اخوان المسلمون پر توڑے جانے والے مظالم کے تذکرے پر مشتمل متعدد کتابیں منظرعام پر آئی ہیں اور ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے، لیکن دیگر مسلم ممالک اور خاص طورپر شام میں اخوان کے ناگفتہ بہ حالات کا دنیا کو بالکل علم نہ تھا۔ ہبہ الدباغ انتہائی شکریے کی مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑے موثر اسلوب اور ادبی پیرایے میں اپنی خودنوشت لکھ کر ان کی ایک ہلکی سی جھلک دکھادی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، جسے بیان الخطیب نامی خاتون نے کیا ہے، کینیڈا سے Just Five Minuteکے نام سے ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا ہے۔ اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے میمونہ حمزہ نے کیا ہے اور اسے ۲۰۱۲ء میں لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے ’منشورات‘ نے شائع کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے اور اس کا ترجمہ دیگر زبانوں میں بھی کیاجائے، تاکہ اجتماعی شعور بیدار ہو اور دنیا کو شام کی بعثی حکومت کے انسانیت سوز مظالم سے واقفیت ہوسکے۔

The post صرف پانچ منٹ-ہبہ الدباغ appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/12/%d8%b5%d8%b1%d9%81-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d9%85%d9%86%d9%b9-%db%81%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%d8%a8%d8%a7%d8%ba/feed/ 0 11066
کلام بنت مجتبیٰ مینا-وقاراحمد زبیری https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d9%86%d8%aa-%d9%85%d8%ac%d8%aa%d8%a8%db%8c%d9%b0-%d9%85%db%8c%d9%86%d8%a7-%d9%88%d9%82%d8%a7%d8%b1%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1%db%8c/ https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d9%86%d8%aa-%d9%85%d8%ac%d8%aa%d8%a8%db%8c%d9%b0-%d9%85%db%8c%d9%86%d8%a7-%d9%88%d9%82%d8%a7%d8%b1%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1%db%8c/#respond Fri, 06 Dec 2024 09:51:28 +0000 https://manshurat.pk/?p=11030 بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔ جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا […]

The post کلام بنت مجتبیٰ مینا-وقاراحمد زبیری appeared first on Manshurat.

]]>
بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔

جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اپنے عمل سے علم کے مثبت پہلوئوں کا اظہار بھی کیا جائے۔ اس لیے انھوں نے طویل عرصے تک نور کی ادارت کی، بتول میں مضامین لکھے، حریم ادب کی نشستوں میں نئی نسل کی رہنمائی بھی کی۔ تحریک کی ذمہ داریوں کو نبھاتی رہیں اور ہرجگہ کامیاب اور کامران رہیں۔

بنت مجتبیٰ مینا مکمل شاعرہ ہیں کیونکہ شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے احساسات کو خوب صورت الفاظ کی لڑی میں پرو کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والا بھی اس چبھن اور کسک کو محسوس کرتا ہے جو شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ مفہوم کی ادایگی اور اس کا ابلاغ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ انھوں نے تمام اصناف سخن کو پوری مہارت سے برتا ہے۔ انھوں نے حمدونعت کہی ہیں، قطعات لکھے ہیں، غزلیں اور نظمیں کہی ہیں لیکن ہمارے ہاں مروجہ انداز کی آزاد نظموں سے مکمل اجتناب برتا ہے۔

بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے بنت مجتبیٰ مینا کی شاعری ایک واضح مقصد کے لیے ہے اور وہ اپنے مقصد کے اظہار میں پوری طرح کامیاب ہیں، یعنی ان کی شاعری مقصدی ادب میں خوش گوار اضافہ ہے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی نعتوں میں بڑی دل سوزی اور عقیدت و احترام ہے۔ انھوں نے کہا ؎

کچھ ہوش نہیں رہتا جب وقت حضوری ہو

دیوانے سے دیوانے، دیوانے محمدؐ کے

ان کی چھوٹی بحرکی نعتیں خوب نہیں بہت خوب ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ غزل کی زیادہ کامیاب شاعرہ ہیں یا نظم کی۔ شاہدہ یوسف کے مطابق: ’’ان کی غزلوں میں ایک کربِ مسلسل ہے جو، ان کے احساس تنہائی، دل شکستگی اور درمندی کا آئینہ دار ہے۔ چند اشعار:

غمِ دوراں، غمِ ہجراں، غمِ جاناں، غمِ دل

اِک دنیا ہے یہاں، کہتے ہو تنہائی ہے

کچھ تو مجھ کو ملا

اِک دل بیتاب سہی

پھر کسی تازہ واردات کی خبر

غنچہ دل کو کیوں ہنسی آئی

ان کی نظم کے بارے میں کہا گیا: ’’سماجی اور معاشرتی المیوں سے مالا مال ہے‘‘۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی نظمیں تاریکیوں میں روشنی اور جبر میں اختیار و اعتبار کا پیغام دیتی ہیں۔ ’ہارسنگھار‘، ’صدقہ‘، ’رات گزر جائے گی‘، ’چاک گریباں‘، ’آواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن سے پُرآشوب حالات میں بھی جینے کا اور مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کی تمام نظموں میں مفہوم کی ادایگی اور مکمل ابلاغ نمایاں ہے۔ بطور مجموعی ان کی شاعری اُجالا پھیلانے والی شاعری ہے۔

منشورات نے اہتمام سے چھاپی ہے۔ سرورق پر خوب صورت جدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی داد دینی چاہیے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی صاحب زادی زہرا نہالہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی والدہ کے خوب صورت کلام کو زمانے کی دستبرد سے محفوظ کرلیا۔

The post کلام بنت مجتبیٰ مینا-وقاراحمد زبیری appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a8%d9%86%d8%aa-%d9%85%d8%ac%d8%aa%d8%a8%db%8c%d9%b0-%d9%85%db%8c%d9%86%d8%a7-%d9%88%d9%82%d8%a7%d8%b1%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%b2%d8%a8%db%8c%d8%b1%db%8c/feed/ 0 11030
کتاب اللہ پڑھنے کے قواعد-طارق نور الٰہی https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%d9%be%da%91%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%db%92-%d9%82%d9%88%d8%a7%d8%b9%d8%af-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%86%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%84%d9%b0%db%81%db%8c/ https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%d9%be%da%91%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%db%92-%d9%82%d9%88%d8%a7%d8%b9%d8%af-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%86%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%84%d9%b0%db%81%db%8c/#respond Fri, 06 Dec 2024 09:08:37 +0000 https://manshurat.pk/?p=11017 قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِ اطہر پر اُتارا گیا۔ اس کلام کو تلاوت کرکے اسے پڑھنے کے طریقے کی تعلیم دی گئی۔ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا سے معلوم ہوا کہ حقِ تلاوت قرآن ٹھیرٹھیر کر پڑھنے ہی سے ادا ہوتا ہے۔ تلاوت میں تلفظ کی درست ادایگی، مخارجِ حروف، وقف […]

The post کتاب اللہ پڑھنے کے قواعد-طارق نور الٰہی appeared first on Manshurat.

]]>
قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِ اطہر پر اُتارا گیا۔ اس کلام کو تلاوت کرکے اسے پڑھنے کے طریقے کی تعلیم دی گئی۔ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا سے معلوم ہوا کہ حقِ تلاوت قرآن ٹھیرٹھیر کر پڑھنے ہی سے ادا ہوتا ہے۔ تلاوت میں تلفظ کی درست ادایگی، مخارجِ حروف، وقف ووصل کے قواعد کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کتاب آدابِ تلاوت اور طریقۂ تلاوت پر ایک اچھا اضافہ ہے۔ مؤلف نے کتاب میں عام فہم علمی اسلوب اختیار کرکے تجوید کی شُدبُد رکھنے والوں کے لیے عمدہ مواد جمع کر دیا ہے۔

مخارج حروف، صفاتِ حروف، تجوید کے منفرد قواعد، علم وقف، علم رسم الخط، علم قراء ت کے ساتھ ساتھ تلاوت شروع اور ختم کرنے کا طریقۂ کار اور علومِ قرآن کے متعدد موضوعات کو ترتیب دے کر قاری کی دل چسپی کا سامان کر دیا ہے۔ تجویدی اصطلاحات کی لغوی و اصطلاحی تعریفات کو بڑی خوبی سے ابتدا میں پیش کر کے ہرسبق کی تفہیم کو آسان کر دیا گیا ہے۔ اگر کتاب کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جائے تو عملی مثالوں سے مزین اسباق، قراء ت کا لطف دوبالا کرنے کا سبب ہوں گے۔

یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ افراد کے ذوق قرآن کو بڑھانے والی ہے۔ ۱۰؍ ابواب پر مشتمل یہ کتاب تجوید کے ابواب کا احاطہ کرتی ہے۔ آخر میں رسول کریمؐ کے خطوط کا عکس، جامع قرآن حضرت عثمانؓ کے مصحف کا عکس، کوفی رسم الخط قرآن کا عکس، قرآنی خطاطی کے نمونے اور دیگر عربی خطاطی کے نمونوں کا اضافہ اچھی کاوش ہے۔
.یہ آن لائن اسلامی کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post کتاب اللہ پڑھنے کے قواعد-طارق نور الٰہی appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/12/06/%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%d9%be%da%91%da%be%d9%86%db%92-%da%a9%db%92-%d9%82%d9%88%d8%a7%d8%b9%d8%af-%d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%86%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%84%d9%b0%db%81%db%8c/feed/ 0 11017