کتب تاریخ اسلام Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/کتب-تاریخ-اسلام/ Manshurat Fri, 20 Dec 2024 12:34:28 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.8.3 https://manshurat.pk/wp-content/uploads/2024/01/cropped-Man_Logo_New-1-32x32.jpg کتب تاریخ اسلام Archives - Manshurat https://manshurat.pk/tag/کتب-تاریخ-اسلام/ 32 32 228176289 اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b2%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7/ https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b2%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7/#respond Tue, 12 Nov 2024 07:29:29 +0000 https://manshurat.pk/?p=10914 ایک وقت تھا سرخ سامراج کے کارندے مزدوروں اور کسانوں کے اندر کام کر کے سرخ سامراج کے لیے میدان ہموار کرتے تھے۔ اللہ پاک نے تحریک اسلامی کو ہمت دی اس نے کمیونسٹ مزدور تحریک کو چیلنج کیا اور ان کو پسپا کردیا۔ یہ پوری داستان بڑی عمدگی سے پروفیسر محمد شفیع ملک نے […]

The post اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
ایک وقت تھا سرخ سامراج کے کارندے مزدوروں اور کسانوں کے اندر کام کر کے سرخ سامراج کے لیے میدان ہموار کرتے تھے۔ اللہ پاک نے تحریک اسلامی کو ہمت دی اس نے کمیونسٹ مزدور تحریک کو چیلنج کیا اور ان کو پسپا کردیا۔ یہ پوری داستان بڑی عمدگی سے پروفیسر محمد شفیع ملک نے 45ابواب میں اس کتاب میں سمو دی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مشکوک کمیونسٹ سوشلسٹ کارندے ایشیا سرخ ہے کہ نعرے لگا رہے تھے ان کے مقابل اسلامی مزدور تحریک نے ایشیا سبز ہے کا غلغلہ بلند کیا اور مسلم عوام کو ان کے خلاف متحرک کیا۔
کتاب کا مقدمہ چوہدری رحمت الٰہی سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے لکھا ہے ، وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں ۔

’’ پروفیسر شفیع ملک نے پاکستان میں اسلامی مزدور تحریک کی تاریخ مرتب کی ہے ،جو کسی کارنامے سے کم نہیں ہے۔ یہ تحریک این ایل ایف کے نام سے سرگرم رہی ہے اور آج بھی جاری ہے۔ پروفیسر شفیع ملک صاحب نے این ایل ایف کی چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے تک قیادت کی ہے، لہٰذا ایک عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے انہوں نے واقعات کو ان کے صحیح تناظر میں کسی مبالغہ آرائی کے بغیر قلم بند کیا ہے۔ اصل کارنامہ تو این ایل ایف کے پلیٹ فارم سے ان کی شان دار جدوجہد ہے ،جس کے ذریعے انہوں نے پاکستان کی مزدور فیلڈ میں سرخ عناصر کا نہ صرف کامیابی سے مقابلہ کیا بلکہ انہیں تاریخی شکست سے بھی دو چار کیا۔ اس ’’جہاد‘‘ کو جس طرح پروفیسر صاحب نے ریکارڈ کیا ہے وہ خود بھی ایک کارنامے سے کم نہیں ہے۔
قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے زمانے میں بھی اس میدان پر اشتراکیت پسند چھائے ہوئے تھے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ طبقاتی کشمکش برپا کر کے ایک خوں ریز انقلاب کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ یہ فکر مزدور اور کارخانے دار کے مابین ٹکرائو کے ذریعے سرخ انقلاب کے لیے زمین تو ہم وار کرسکتی تھی جو ان کا اصل مقصد تھا لیکن مزدوروں کے مسائل حل نہیں کرسکتی تھی۔ ملک صاحب نے جماعت اسلامی کی راہ نمائی میں صحیح اسلامی سوچ کے مطابق مزدور اور کارخانے دار میں مفاہمت اور دونوں کے حقوق کی پاس داری کا راستہ اختیار کیا۔ جس سے ایک طرف مزدور کو اس کے جائز حقوق حاصل ہوں اور دوسری طرف کارخانے دار کو بھی عدل و انصاف کے ساتھ اپنا کاروبار جاری رکھنے کا موقع ملے اور دونوں مل کر ملک کی ترقی کی راہ ہموار کرسکیں ۔ ظاہر ہے اس کام کے لیے محنت کشوں کی تربیت نہایت ضروری تھی چنانچہ پروفیسر صاحب نے تربیتی پروگراموںکے ذریعے مزدوروں میں اسلامی فکر پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ نیز مزدوروںکے کلچر کو اسلامی رنگ دینے کے لیے بھی اقدامات کیے جس کی ایک مثال ’’یوم یکم مئی‘‘ کی جگہ ’’ یوم خندق‘‘ منانے کا اقدام تھا۔
اسی جدوجہد کے نتیجے میں پروفیسر شفیع ملک کا نام ملک میں اسلامی مزدور تحریک کی پہچان بن چکا ہے، مزدور تحریک میں ان کی جدوجہد کو کم و بیش 62 برس کا عرصہ ہو چکا ہے، گویا یہ نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں ۔ آج بھی وہ پیرانہ سالی میں مزدور تحریک کے ساتھ نوجوانوں کے سے جوش و جذبے سے کام کررہے ہیں ۔ انہوں نے 31برس تک (2000-1969) بھرپور انداز میں ملک کی اسلامی مزدور تحریک کی براہ راست قیادت کی۔
مصنف نے اپنی ساری زندگی مزدور تحریک اور محنت کشوں کے لیے وقف کردی۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں مزدور تحریک کا جو پودا انہوں نے ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری میں لگایا تھا اور جسے سید مودودیؒ کی دعا، چودھری غلام محمد کی فہم و فراست اور مولوی فرید احمد شہید کی حوصلہ افزائی نے نشوونما فراہم کی، اس نے بعد میں ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی اور ایک ایسی قوت بن کر ابھری جو بالآخر ایشیا میں اسلامی مزدور تحریک کا ہراول دستہ بنی۔

جماعت اسلامی نے ابتدا ہی میں یہ اندازہ کرلیا تھا کہ ملک میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے کے لیے اسے طلبہ اور مزدوروں میں بھی کام کرنا ہوگا۔ اسی لیے جماعت اسلامی نے سب سے پہلے 1949ء میں لیبر ویلفیئر کمیٹی کے نام سے کام کا آغاز کیا، جس نے بعد میں لیبر فیڈریشن آف پاکستان اور پھر 1969ء میں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کی شکل اختیارکرلی۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے محسوس کیاکہ ملک کا بایا ںبازو، جسے حکومت کے بااثر افراد کی حمایت حاصل ہے ، مزدور طبقے کو ہائی جیک کر کے انہیں ایک طبقاتی کشمکش کے ذریعے سرخ انقلاب کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ اس کی راہ روکنے کے لیے جماعت اسلامی نے مزدور فیلڈ میں قدم رکھا اور ایک ایسی تنظیم کی بنیاد ڈالی جس پر مکمل بھروسا اور اعتماد کیا جاسکے اور جو ایک طرف محنت کشوں کے مسائل کو بھی حل کرے، ان کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے اور ملک میں اسلام کے نظام عدل کے قیام کے لیے محنت کشوں کو ذہنی طور پر تیار کرے۔
اس کتاب میں بہت سے چشم کشا حقائق اور چونکا دینے والے انکشافات بھی ہیں جو پاکستان میں مزدور تحریک کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ اشتراکی نظریات کے حامل ان مزدور رہنمائوں کے چہروں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جو سرمایہ داروں سے مراعات حاصل کر کے پرتعیش زندگی گزارتے اور مزدور کے نام پرعیاشی کرتے تھے، انتقامی کارروائیوں کے ذریعے مخالفین پر عرصۂ حیات تنگ کرتے رہے۔ ان حکمرانوں کا بھی ذکر ہے جو عوامی امنگوں کے خلاف ملک میںاسلامی تحریک کے اثرات پھیلنے سے خوف زدہ ہو کر اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔
یوم شوکت اسلام کے پرشکوہ جلوس میں مزدوروں کی شاندار ریلیاں، پیاسی کی پی آئی اے کے ریفرنڈم میں شاندار کامیابیاں اور کراچی کے اہم اداروں نیشنل بینک، کے ڈی اے، پراچہ ٹیکسٹائل ملز وغیرہ میں این ایل ایف کی یونینوں کی جیت نے بجا طور پر مزدوروں میں ملت اسلامیہ کے تصورکو اجاگر کیا اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی مزدور تحریک کی جدوجہد کی راہ ہموار کی۔ متحدہ پاکستان کی آخری سہ فریقی لیبر کانفرنس کی روداد میں، آجروں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دینے والے مزدوروں کا بھی قصہ ہے جو نہ جانے کس کے اشارے پر کام کررہے تھے۔ کتاب میں پیاسی کی کامیابی، ناکامی، اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔
اس کتاب میں اجمالی طور پر ملک کی سیاسی تاریخ بھی آگئی ہے کیوں کہ حکمراں طبقہ براہ راست ہر شعبہ زندگی کی طرح مزدور تحریک پر بھی اثر انداز ہو کر اس کے بنائو بگاڑ کا ذمے دار رہاہے۔
بھٹو حکومت کی چیرہ دستیوں، ٹریڈ یونین امور میں ان کی مداخلت اور اس کے نتیجے میں مزدوروں کے غیض و غضب کا احوال بھی مصنف نے سنایا ہے جس کی وجہ سے بھٹو حکومت روبہ زوال ہو کر ختم ہوگئی۔
1977ء کی قومی اتحاد کی تحریک میں بھی مزدوروں اور این ایل ایف نے پورے ملک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے جب ملک میں مارشل لا لگایا تو انہیں مزدوروں کی طاقت کا پوری طرح اندازہ تھا، اس لیے انہوں نے اس جن کو بوتل میں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
مصنف نے پاکستان کی مزدور تحریک کی ارتقائی جدوجہد کو رقم کر کے اس کتاب کو ایک قیمتی دستاویز کی شکل دے دی ہے۔ اس کتاب میںملک کے تمام بڑے اداروں مثلاً پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، پاکستان اسٹیل مل، کراچی شپ یارڈ، پی این ایس سی، سیمنس، ہینکس، کول مائنز کا تذکرہ شامل ہے۔ ان اداروں میں بعض ٹریڈ یونینز کی مفاد پرست قیاد ت کا منفی کردار بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جنہوں نے طبقاتی کشمکش برپا کر کے مزدوروں کے لیے مشکلات پیدا کردیں ۔
مصنف نے اس کتاب میں این ایل ایف کی کامیابی کی کہانی ہی پیش نہیں کی بلکہ تحریک کے دوران پیش آنے والے واقعات، تجربات اور مشاہدات بھی پوری دیانت داری اور غیر جانب داری سے قلم بند کردیے ہیں اور اپنی خامیوں پر کہیں پردہ ڈالنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے کیوں کہ یہی خامیاں آنے والوں کو راہ نمائی فراہم کریں گی۔
کتاب میں آپ کو مزدور تحریک میں اپنی جوانی اور زندگی کھپا دینے والوں کے اخلاف، محبت، ہمت، جرأت، عزم و حوصلے کی کہانیاں اور واقعات جا بجا نظر آئیں گے جو بعد کے لوگوں کو روشنی فراہم کرتے رہیں گے۔ این ایل ایف نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف فورمز پر مزدوروں کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی قیادت کا لوہا منوایا اور کانفرنسوں، کنونشنز اور مہمات میں غیر معمولی دل چسپی لے کر مزدوروں کو ایک سنجیدہ اور پاکیزہ کلچر سے روشناس کرایا جو اس سے پہلے سستی تفریح اور ناچ گانے تک محدود تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کانفرنسوں کی افادیت اور اثرات کو محسوس کیا گیا۔
کتاب میں مصنف نے اسلامی مزدور تحریک ہی نہیں بلکہ ملک کی پوری مزدور تحریک کے اہم پہلوئوں پر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے اپنے معاصرین کا تذکرہ بھی انتہائی اخلاص سے کیا ہے۔ ان کی خوبیوں کا بجا طور پر اعتراف اور ان کی خامیوں کی درست طور پر نشانہ دہی بھی کی ہے۔
انہوں نے اپنے معاصرین اور مقابلے پر درپیش چیلنجوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ان نو وارد ساتھیوں کا بھی تعارف کرایا ہے جو اس مزدور تحریک میں ان کے دست و بازو بنے اور ان السابقون الاوّلون کا بھی ذکر کیا ہے جو انہیں اس خارزار وادی میں لائے اور ایک خوب صورت موڑ پر ساتھ چھوڑ گئے۔
امید ہے کہ یہ نئی کتاب مزدور فیلڈ سے تعلق رکھنے والے اہل درد حضرات کے نظریاتی خزانے میں ایک بیش بہا اضافہ ثابت ہوگی۔ یہ کتاب کئی قیمتی اور اہم اسباق سے بھری ہوئی ہے۔ ہر صاحب فہم و فراست کے لیے لازم ہے کہ وہ غور سے اس کتاب کا مطالعہ کرے اور پھر اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کر کے اُسی عہدزریں کو واپس لانے کی کوشش کرے:
کتاب منشورات نے اپنے روایتی اسلوب میں خوبصورت طبع کی ہے، مجلد ہے اور حسین سرورق سے مزین ہے۔
.یہ کتب تاریخ اسلام کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b2%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7/feed/ 0 10914
شان و شوکت کی ہوس-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%b4%d8%a7%d9%86-%d9%88-%d8%b4%d9%88%da%a9%d8%aa-%da%a9%db%8c-%db%81%d9%88%d8%b3-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/ https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%b4%d8%a7%d9%86-%d9%88-%d8%b4%d9%88%da%a9%d8%aa-%da%a9%db%8c-%db%81%d9%88%d8%b3-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/#respond Tue, 12 Nov 2024 06:53:57 +0000 https://manshurat.pk/?p=10910 یہ کتاب ہماری زندگی کے زندہ موضوعات سے بحث کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے سے اسلام کی ابدی تعلیمات کو قسطوں میں خارج کیا جارہا ہے۔ اہلِ علم کا فرض ہے کہ ان کی نشان دہی کریں اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو واضح کرکے پیش کرتے رہیں، اللہ جل شانہٗ کے ہاں ہم بری […]

The post شان و شوکت کی ہوس-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
یہ کتاب ہماری زندگی کے زندہ موضوعات سے بحث کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے سے اسلام کی ابدی تعلیمات کو قسطوں میں خارج کیا جارہا ہے۔ اہلِ علم کا فرض ہے کہ ان کی نشان دہی کریں اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو واضح کرکے پیش کرتے رہیں، اللہ جل شانہٗ کے ہاں ہم بری الذمہ اسی صورت میں ہوسکتے ہیں۔ جب کہ مغربی فلسفوں کا طوفان بدتمیزی سب کچھ بہائے لیے جارہا ہے۔ ڈاکٹر محمد سلیم شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس طرف توجہ کی، اور ادارہ منشورات توصیف و تعریف کا حق دار ہے کہ اس نے یہ گراں قدر کتاب شائع کی۔
ڈاکٹر محمد سلیم تحریر فرماتے ہیں:

’’یہ کتاب پڑھنے سے پہلے ایک بات پیش نظر رہے کہ یہ کتاب، اُن مخلص مسلمانوں کے لیے نہیں لکھی گئی، جن کی گردن اللہ تعالیٰ کے احسانات کے سامنے ہر وقت جھکی رہتی ہے۔ جو حلال روزی پر قناعت کرتے ہیں اور پھر اس پیسے کو اپنی ملکیت کے بجائے اللہ کی امانت سمجھ کر میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں۔ انکساری کی وجہ سے لوگوں کو اپنی امارت یا بڑے عہدے کا پتا نہیں چلنے دیتے اور اِس دنیا کو مسافر خانہ سمجھتے ہوئے ان کے دل آخرت کی تیاری سے غافل نہیں رہتے۔ ہاں ، تبلیغ کی نیت سے اس کتاب کو پڑھنا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
یہ کتاب اُن طالب علموں کے لیے بھی فائدہ مند رہے گی، جن کے ذہن میں اسٹیٹس (Status) یعنی شان و شوکت کے بارے میں منصوبہ سازی ہوتی رہتی ہے۔ ماحول ہی ایسا بن چکا ہے یا بنادیا گیا ہے کہ اسلامی شعائر (Islamic Symbols) کو بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور انتہا پسندی (Extremism)کی علامات سمجھا جانے لگا ہے۔ جبکہ شان و شوکت کے مظاہر کو عزت، وقار اور ترقی کی علامات سمجھا جاتا ہے۔ کامیابی اعمال کے بجائے مال میں سمجھی جاتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو غلامی جبکہ اپنی مرضی کی (Secular) زندگی کو آزادی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اور یہ کتاب اسی حقیقت کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ہے۔
اسلام کی نظر میں صاف ستھرا لباس اور اچھا رہن سہن مسئلہ نہیں، مسئلہ کچھ اور ہے۔ اس سلسلے کی تفصیل آپ کو مقدمے میں پڑھنے کو ملے گی۔ سردست ایک حدیث میں غور کرتے ہیں۔
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مَثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلْ: اَنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوَنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنَۃٌ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ: اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ۔
’’جنت میں نہ جائے گا وہ شخص جس کے دل میں تکبر کا ایک ذرہ بھی ہوگا‘‘۔
ایک شخص بولا: ’’ہر ایک آدمی چاہتا ہے اس کا جوتا اچھا ہو اور کپڑے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبر ہے)؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جمیل ہے، دوست رکھتا ہے جمال کو، تکبر حق کو نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان 265، ترمذی 1999)
اس حدیث میں بطرالحق کے الفاظ ہیں۔ بَطَرَہ کے اصل معنی چیرنے، شگاف دینے یا پھاڑنے کے ہیں۔ بَطَرَہ یعنی زیادتی نعمت کی وجہ سے حیران ہونا، اترانا، بہک جانا۔ بطرالحق یعنی حق کو خاطر میں نہ لانا، قبول نہ کرنا۔ یعنی جیسے نعمت کی فراوانی نے کسی کی آنکھیں پھوڑ دی ہوں اور وہ حق کو خاطر میں نہ لائے۔ (مصباح اللغات)۔
تو مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو اسٹیٹس ملتا ہے یا اسٹیٹس میں ترقی ہوتی ہے تو پھر صاحب کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ اس حقیقت (حق) کو تسلیم نہ کرے اور کہے کہ ’’ یہ مال تو میں نے بڑی محنت سے کمایا ہے‘‘۔ دوسری حقیقت جو ’’صاحب‘‘ کو تسلیم کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ مال و دولت ایک امانت، ایک آزمائش ہے، کوئی انعام نہیں۔ اور حق یہ ہے کہ اس دولت کو میانہ روی سے صرف وہیں خرچ کرنا ہے جہاں شرعی ضروریات ہیں۔ تکبر اس دولت کو اپنی ملکیت سمجھ کر ’’میں جہاں چاہوں، جیسے چاہوں خرچ کروں‘‘ والی سوچ ہے۔ یہ ’’میں اور میری مرضی‘‘ تکبر کی علامات ہیں۔
اسٹیٹس میں آزمائش یہ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے خوش حالی بڑھے، ویسے ہی شکریہ میں انسان کی گردن اور دل اللہ کے سامنے زیادہ جھک جائیں، مزاج میں زیادہ تواضع اور انکساری آئے۔ مگر یہاں تو ’’صاحب‘‘ کا مزاج ہی اونچا (Elite) ہوچکا ہے اور اب دوسروں سے ان کی حیثیت (Worth) کے مطابق برتائو ہوتا ہے۔ یہ بھی تکبر ہے۔ بس یہ کتاب قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک یاددہانی ہے۔ ہاں جو غور و فکر کرے اور شکر کے طور پر اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرلے تو پھر اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے:
(ترجمہ) ’’اور جب تمہارے رب نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ (ابراہیم۔ 7:14 )
یہ کتاب کسی بھی فرد، ذات یا قبیلے کو ٹارگٹ بناکر نہیں لکھی گئی، اور نہ ہی کسی کی توہین مقصود ہے۔ بلکہ اصل نیت خیر خواہی ہے۔ چودھری، سیٹھ جیسے الفاظ محض سمجھانے کے لیے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کتاب کو لکھنے والا پڑھنے والے سے زیادہ گناہ گار ہو۔ یہ کتاب ایک آئینہ ہے، مؤلّف کے لیے بھی اور قارئین کے لیے بھی۔ ہم سب ہدایت کے محتاج ہیں اور سبھی اللہ کے سامنے فقیر ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شرح صدر سے نواز دے اور ہدایت والے راستے پر چلا دے (آمین)۔
اس کتاب کے دو حصے ہیں:
٭ پہلا حصہ ’’مقدمہ‘‘ قدرے طویل ہے۔ یہ اسٹیٹس کی نقاب کشائی ہے۔
٭ دوسرا حصہ دنیا کے دھوکے اور آخرت (دارالقرار) کی حقیقت کے متعلق ہے۔

اس کتاب میں ’’دنیا دار‘‘ کے الفاظ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو زندگی گزارنے کے لیے قرآن حکیم کی رہنمائی کے بجائے اپنی عقل اور خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے بجائے زمانے کے چلن (رسم و رواج) کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔
اور اس کتاب میں ’’دین دار‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عقل اور خواہشات کو فقیرانہ عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کیا ہوا ہے اور جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا ہادی و رہنما تسلیم کیا ہے۔‘‘
اس قسم کی کتابیں، خاص کر زیر نظر کتاب’’شان و شوکت کی ہوس‘‘ ہر گھر کی ضرورت ہے کہ وہ موجود ہو اور پڑھی جائے۔
کتاب خوبصورت طبع ہوئی ہے۔ دینی، تبلیغی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔
.یہ کتب تاریخ اسلام کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post شان و شوکت کی ہوس-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%b4%d8%a7%d9%86-%d9%88-%d8%b4%d9%88%da%a9%d8%aa-%da%a9%db%8c-%db%81%d9%88%d8%b3-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%86%d9%88%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86/feed/ 0 10910
رہنمائے تربیت کارکنانِ دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل-ملک نواز احمد اعوان https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%b1%db%81%d9%86%d9%85%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%a9%d9%86%d8%a7%d9%86%d9%90-%d8%af%d8%b9%d9%88%d8%aa-%d9%88-%d8%aa%d8%a8%d9%84%db%8c%d8%ba-%da%a9%db%92/ https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%b1%db%81%d9%86%d9%85%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%a9%d9%86%d8%a7%d9%86%d9%90-%d8%af%d8%b9%d9%88%d8%aa-%d9%88-%d8%aa%d8%a8%d9%84%db%8c%d8%ba-%da%a9%db%92/#respond Tue, 12 Nov 2024 06:32:52 +0000 https://manshurat.pk/?p=10907 یہ گرانقدر کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے۔ شاہ محی الحق صاحب نے بڑی دقتِ نظری سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن عالمی ادارہ فکرِ اسلامی اسلام آباد سے شائع ہوا تھا۔ یہ دوسرا ایڈیشن منشورات لاہور نے شائع کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی کتب […]

The post رہنمائے تربیت کارکنانِ دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
یہ گرانقدر کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے۔ شاہ محی الحق صاحب نے بڑی دقتِ نظری سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن عالمی ادارہ فکرِ اسلامی اسلام آباد سے شائع ہوا تھا۔ یہ دوسرا ایڈیشن منشورات لاہور نے شائع کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی کتب ہر وقت بازار میں دستیاب ہونی چاہئیں۔ کتاب خرم جاہ مراد مرحوم کے نام معنون کی گئی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے محرکین میں سے ایک جناب ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری تحریر فرماتے ہیں۔
’’اسلام کی دعوت و تبلیغ کا عمل اُمت ِ مسلمہ کا ایسا امتیاز ہے جو ہماری تاریخ کے ہر عہد میں مسلسل جاری رہا ہے۔ گزشتہ صدیوں میں اس کام کی انجام دہی میں بالعموم مذہبی اداروں سے وابستہ افراد پیش پیش رہے ہیں لیکن پچھلے کئی عشروں سے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور مسلمان معاشروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے کی جدوجہد کا یہ پہلو قابلِ ذکر نظر آتا ہے کہ اس میں اُن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن کا تعلق اگرچہ مدرسہ و خانقاہ سے نہ تھا لیکن ان کی دینی غیرت اور دین کی خدمت کا جذبہ دوسروں سے کم نہ تھا۔ اس طرح باضابطہ علماء اور غیر علماء کے اشتراک و تعاون سے کم و بیش ہر جگہ دینی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان سرگرمیوں کا دوسرا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ متعدد ایسے ممالک میں بھی جہاں مسلمان اس سے قبل آباد نہ تھے، دینی دعوت و تبلیغ کا کام تیزی سے بڑھا ہے۔ یہ امر مسرت کا موجب ہے کہ غریب الدیاری میں ہمارے بہت سے بھائیوں اور بہنوں کا اپنے دین سے تعلق نہ صرف قائم رہا بلکہ بعض اوقات مزید مستحکم ہوا، اور ان میں یہ جذبہ بھی پیدا ہوا کہ وہ ایک طرف اسلام کی دعوت دوسروں تک پہنچائیں اور دوسری طرف خود اپنی اور اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی اسلامیت کو برقرار رکھنے اور مضبوط اور زیادہ معنی خیز بنانے کا اہتمام کریں۔
چنانچہ انگلستان، فرانس اور امریکہ وغیرہ میں ایسی متعدد تنظیمیں قائم ہوئیں اور اسلامی دعوت کے لیے مختلف قسم کی سرگرمیاں سامنے آئیں۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر ہشام الطالب اُن چند نمایاں افراد میں سے ہیں جنہوں نے شمالی امریکہ میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ]ایم ایس اے[ کی داغ بیل ڈالی۔ ان کا تعلق ایم ایس اے کی اس ابتدائی قیادت سے ہے جس نے شمالی امریکہ میں، خاص طور پر وہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلمان طلبہ کو بیدار اور اسلامی مقاصد کے لیے ان کو منظم اور متحرک کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ اسلامی سرگرمیوں میں گزرا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں مختلف تنظیموں کے کام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کے اندر یہ خواہش ابھری کہ اسلامی دعوت کو ایسے خطوط پر استوار کیا جائے کہ اس سے وابستہ افراد کی صلاحیتوں کی نشوونما اور ان سے بہتر سے بہتر کام لیا جاسکے تاکہ یہ دعوت زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز بن سکے۔ ڈاکٹر ہشام الطالب نے اپنے مشاہدے، تجربے اور سوچ بچار کا حاصل زیر نظر کتاب کی صورت میں قلم بند کردیا ہے۔
جیسا کہ اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، یہ مختلف معاشروں میں دینی دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے کچھ رہنما اصول فراہم کرنے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ ایسے اصول جن کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو دعوت کا عمل زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب پہلے ’’عالمی ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ کے زیراہتمام انگریزی میں، اور اس کے بعد عربی زبان میں شائع ہوئی اور اسے بڑے پیمانے پر تحسین کی نظر سے دیکھا گیا، اور دینی کام کرنے والے افراد اور جماعتوں نے محسوس کیا کہ اس میں ان کے لیے ایک جامع راہِ عمل اور نہایت قیمتی ہدایات موجود ہیں۔
کتاب کے مندرجات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں پر مرکوز ہیں۔ ایک فرد کی شخصی تعمیر سے لے کر دعوتِ اسلامی کی توسیع تک، اور اس سلسلے میں مؤثر انداز کے اجتماعات منعقد کرنے سے لے کر دعوتِ اسلامی کی منصوبہ بندی تک، اور دعوت وتبلیغ کے معروف طریقوں کے استعمال سے لے کر عصرِ حاضر کی بہترین سہولتوں کے استعمال پر غور و فکر جیسے بے شمار مسائل اس میں زیر بحث آگئے ہیں۔ کتاب کی اسی افادیت کے پیش نظر ہم اس کا اردو ترجمہ پیش کررہے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے وہ لوگ جو دعوت کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ وہ تمام اردو خواں جو اس میدان میں کام کرنا چاہتے ہیں، اُن کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا اور اسلامی مقاصد کے لیے اپنی سعی و جہد میں وہ اس سے عملی طور پر استفادہ کرسکیں گے۔
اس کتاب کے ترجمے کا کام جناب شاہ محی الحق فاروقی صاحب کے سپرد کیا گیا تھا جو نہ صرف ایک کہنہ مشق اور صاحبِ طرز ادیب ہیں بلکہ ترجمے کا بھی سلیقہ اور تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب نے بہت توجہ اور قابلیت سے اس کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ چونکہ کتاب نفسِ مضمون کے اعتبار سے عام دینی کتابوں سے مختلف ہے، اس لیے ترجمے کے محاسن سے باخبر ہونے کے باوجود اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر نظرثانی کی جائے۔ اس مرحلے پر جناب ممتاز لیاقت صاحب نے ]جو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں میرے رفیقِ کار اور صحافت کا تجربہ رکھتے ہیں[کتاب کے مسودے کا جائزہ لیا اور نظرثانی کے سلسلے میں بعض مفید مشورے دیے۔
اس رہنما کتاب کا استعمال پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی مرحوم و مغفور کی تصنیف ’’توحید: زندگی اور فکر کے لیے اس کا معنی اور مفہوم‘‘ ]انگریزی[کے ساتھ ملا کر کیا جانا چاہیے جو اولاً ’’عالمی ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ اور بعد میں طلبہ تنظیموں کی بین الاقوامی اسلامی وفاقیہ کی جانب سے شائع کی گئی تھی۔ زیرنظر کتاب کا بنیادی مقصد اسلام کی تبلیغ کے سائنسی اور فنی پہلوئوں کو اجاگر کرنا اور زیرتربیت افراد کی تیاری کے طریقوں پر روشنی ڈالنا ہے، جب کہ پروفیسر فاروقی مرحوم کی کتاب ’’توحید‘‘ کا تعلق خود اس پیغام یعنی اسلامی تعلیمات کی مناسب انداز میں توضیح سے ہے۔
زیرنظر رہنما کتاب کی ضخامت کو اس حد تک کم رکھنے کے لیے کہ اس کا مطالعہ کرنا آسان ہو، ہم نے اس کے عنوانات کا انتخاب کافی احتیاط سے سوچ بچار کے بعد کیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ’’عالمی ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ میں وسائلِ انسانی کی ترقی کا شعبہ اپنے کتب خانہ اور دیگر تمام ممکن ذرائع سے کام لے کر دوسرے موضوعات کے بارے میں ضروری مواد پیش کرے گا اور میدانِ عمل میں مصروف کارکنوں کے استفسارات کا تسلی بخش جواب دے کر اس رہنما کتاب کی افادیت میں گرانقدر اضافہ کرے گا۔
اس کتاب میں شامل بہت سے معاملات کا تذکرہ صرف قارئین کو متوجہ کرنے اور انہیں اپنا فرضِ منصبی یاد دلانے کی غرض سے کیا گیا ہے، لہٰذا اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین خود کو صرف اس کتاب تک محدود نہ رکھیں بلکہ بہتر تفہیم اور ادراک کے لیے اپنے مطالعہ کو وسعت دیں، مزید مواد اور ماخذ تلاش کریں، کیونکہ اس میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ ترقی ہورہی ہے۔ اس میں مہارت نئی تحقیقات کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان موضوعات سے متعلق کتابوں کا مطالعہ اور کانفرنسوں اور لائبریریوں سے مسلسل رابطہ تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے افراد دونوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے اس مشکل کام کو ممکن بنایا۔ اے اللہ! تُو ہمیں صراطِ مستقیم پر چلا۔ آمین‘‘
.یہ کتب تاریخ اسلام کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post رہنمائے تربیت کارکنانِ دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل-ملک نواز احمد اعوان appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/11/12/%d8%b1%db%81%d9%86%d9%85%d8%a7%d8%a6%db%92-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%a9%d9%86%d8%a7%d9%86%d9%90-%d8%af%d8%b9%d9%88%d8%aa-%d9%88-%d8%aa%d8%a8%d9%84%db%8c%d8%ba-%da%a9%db%92/feed/ 0 10907
ایک نیامجسمہ – اختر عباس https://manshurat.pk/2024/10/31/%d8%a7%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d8%a7%d9%85%d8%ac%d8%b3%d9%85%db%81-%d8%a7%d8%ae%d8%aa%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%a7%d8%b3/ https://manshurat.pk/2024/10/31/%d8%a7%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d8%a7%d9%85%d8%ac%d8%b3%d9%85%db%81-%d8%a7%d8%ae%d8%aa%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%a7%d8%b3/#respond Thu, 31 Oct 2024 07:11:48 +0000 https://manshurat.pk/?p=10881 ایک نیامجسمہ ’’زندگی کی حقیقت تو صرف چند سطور میں بیان ہو سکتی ہے پھر اتنی ڈھیر ساری کتابیں کیوں۔۔۔؟‘‘ بہت سال پہلے یہ سوال پائولوکوئیلو نے اٹھایا اور خود ہی اس کا جواب بھی دے ڈالا’’۔۔۔تاکہ ہم ان سطور کو سمجھنے کے قابل ہوسکیں!‘‘ اختر حسین عزمی کا یہ ناول بھی اسی ذیل میں […]

The post ایک نیامجسمہ – اختر عباس appeared first on Manshurat.

]]>
ایک نیامجسمہ
’’زندگی کی حقیقت تو صرف چند سطور میں بیان ہو سکتی ہے پھر اتنی ڈھیر ساری کتابیں کیوں۔۔۔؟‘‘
بہت سال پہلے یہ سوال پائولوکوئیلو نے اٹھایا اور خود ہی اس کا جواب بھی دے ڈالا’’۔۔۔تاکہ ہم ان سطور کو سمجھنے کے قابل ہوسکیں!‘‘
اختر حسین عزمی کا یہ ناول بھی اسی ذیل میں آتا ہے ۔ وادیٔ نیل اور اس کے مسافر کی یہ داستان جہاں بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہے، وہاں ایک دنیا ہے جو اس کی محبت دل میں لیے گھومتی ہے۔ یہ ناول اس محبت کا بیاں ہے۔؎
جو بھی ہے محبت کا پھیلائو ہے
اختر عزمی مضامین اور کہانیاں لکھتے لکھتے ناول کی وادی میں کیسے آنکلے؟ یقیناً اس کی بھی کوئی داستان ہوگی مگر اتفاق یہ ہے کہ مجھے ان سے ایسی کوئی توقع نہ تھی یا یوں یوں کہیے کہ کوئی خطرہ یا خدشہ بھی نہیں تھا۔ ایک معصوم ، سادہ اور کالج کے بچوں کو پڑھانے میں دل و جان سے مستغرق آدمی سے ایسی توقع رکھی بھی کیسے جاسکتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان کے مضامین اورکہانیوں سے خیالات کے خوبصورت چشمے ہی نہیں، دانائی بھی پھوٹتی ہے۔ اس ناول میں وہ ہمیں دانائی کے ایک ایسے ہی سرچشمے تک لے گئے ہیں۔جس سے عام اردو خواں طبقہ ناآشنا ہے۔
لکھنے والے کے لفظ خالی معلومات کے اظہار اور کسی پسندیدہ کردار کے اطوار کے اقرا ر میں ہی وقف ہوں تو اس سے زیادہ خشک تحریر کوئی اور نہیں ہوتی۔ یقیناً اختر عزمی اس حقیقت کو جانتے ہوں گے تبھی تو انہوں نے اپنے ممدو ح کے بارے میں ایسا سحر انگیز نقشہ کھینچا ہےکہ تاریخ اور حقیقت کے شیرے میں گندھا ہوا بھی ہے اور تاثر کی موزوں اور متناسب مقدار سے آراستہ بھی۔
’’نیل کا مسافر‘‘ بنیادی طور پر جس صاحب بصیرت کردا ر کی کہانی ہے، اس پر ایک دنیا دیوانہ وار فدا ہے۔ اس کی ایک نگاہ سے دل و نظر کی دنیا بدلتی تھی۔ اخوان المسلمون کے پودے کو اپنی سوچ، فکر اور جوانی و شہادت سے سیراب کرنے والے امام حسن البنا پر اردو میں چھوٹی چھوٹی کتابیں اور پمفلٹ تو مل جاتے ہیں مگر ایسی کوشش عزمیکے ماتھے کا جھومر بنی ہے۔
اس ناول کی بنیادی خوبی اس کا فطری بہائو ہے جو قاری کو اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اپنے موضوع اور انداز تحریر کے اعتبار سے تحریکی ادب میں اس ناول کا ایک خاص مقام ابھی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ عزمی نے امام کی شخصیت کے وہ سارے گوشے اور پرتیں دھیرے دھیرے ۔۔۔ کسی تردّد اوربوجھ کے بغیر ۔۔۔ بڑی نفاست اور پیار سے قاری کے سامنے یوں کھولی ہیں کہ ان کی خوشبو آتی محسوس ہوتی ہے۔
ہر لکھنے والے کو ، وہ مانے یا نہ مانے، گھر بنانے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ سنگ و خشت کے نہیں، محبت اور پیار کےگداز سے آراستہ، لفظوں اور جملوں سے سجے، مفہوم و معانی کی دیواروں اور سوچ و فہم کے دریچوں سے مکمل ہونے والا گھر۔۔۔ ایسا ہی ایک گھرعزمی نے اپنے لیے تیار کیا ہے۔ یہ دوسرا اتفاق ہے کہ اس میں رہنے کا موقع اس قاری کو ملے گا جو اس تحریر کو دل کی آنکھوں سے پڑھے گا اور اس کی روح سے متعارف ہوگا۔ نئ کہانی اور نیا کردار شروع میں اجنبی اور نیا نیا لگتا ہے مگر جس لمحے وہ اپنی انگلی آگے کردے اور قاری کے ساتھ چل دے، پھر اس کے سحر سے نکلنے کی صورت کم ہی بچتی ہے۔
اختر عزمی نے ’’نیل کا مسافر‘‘ میں ہمیں ایک ایسے مہربان ، شفیق اور درد دل رکھنے والے ہیرو سے ملوایاہے جس کا سایہ بھی ایسا گھنا اور خوشبودار ہے کہ نصف صدی کے بعد بھی وہاں بیٹھنے اور اسے پیار کرنے والوں میں کمی نہیں آئی . مائیکل اینجلو نے کہا تھا: میں تو مجسمہ نہیں بناتا مجسمہ تو پہلے ہی پتھر میں موجود ہوتا ہے۔ میرا کام تو محض اتنا ہے کہ زاید پتھر تراش کر علیحدہ کر دوں۔ مجسمہ کے نقوش خود بخود ابھر کر سامنے آجائیں گے۔ عزمی نے اس ناول میں کسی حد تک یہی کام کیا ہے ۔ حالانکہ اسے یہ بات ماننے میں تھوڑی جھجک ہوگی کیونکہ بنیادی طور پر اس کا تعلق مجسمہ سازوں سے نہیں مجسمے توڑنے والوں سے ہے
.یہ کتب تاریخ اسلام کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post ایک نیامجسمہ – اختر عباس appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/10/31/%d8%a7%db%8c%da%a9-%d9%86%db%8c%d8%a7%d9%85%d8%ac%d8%b3%d9%85%db%81-%d8%a7%d8%ae%d8%aa%d8%b1-%d8%b9%d8%a8%d8%a7%d8%b3/feed/ 0 10881
خرم مراد کی تصنیف ”لمحات“ https://manshurat.pk/2024/10/18/%d8%ae%d8%b1%d9%85-%d9%85%d8%b1%d8%a7%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b5%d9%86%db%8c%d9%81-%d9%84%d9%85%d8%ad%d8%a7%d8%aa/ https://manshurat.pk/2024/10/18/%d8%ae%d8%b1%d9%85-%d9%85%d8%b1%d8%a7%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b5%d9%86%db%8c%d9%81-%d9%84%d9%85%d8%ad%d8%a7%d8%aa/#respond Fri, 18 Oct 2024 06:54:47 +0000 https://manshurat.pk/?p=10828 پنجاب کی موجودہ نگران حکومت میں سب سے کم عمر وزیر ابراہیم مراد کے دادااور یو۔ ایم۔ ٹی کے بانی ڈاکٹر حسن صہیب مرادکے والد محترم خرم مراد ایک ممتاز دانش ور‘ مصنف‘ محقق اور اسلامی احیائی تحریک کے معروف رہنما تھے۔ 1953ءمیں این ای ڈی انجینئر نگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں گریجوایشن […]

The post خرم مراد کی تصنیف ”لمحات“ appeared first on Manshurat.

]]>
پنجاب کی موجودہ نگران حکومت میں سب سے کم عمر وزیر ابراہیم مراد کے دادااور یو۔ ایم۔ ٹی کے بانی ڈاکٹر حسن صہیب مرادکے والد محترم خرم مراد ایک ممتاز دانش ور‘ مصنف‘ محقق اور اسلامی احیائی تحریک کے معروف رہنما تھے۔ 1953ءمیں این ای ڈی انجینئر نگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں گریجوایشن کی اور پھر تقریباً دو برس تک یہیں پر لیکچر ررہے۔ 1958ءمیں یونی ورسٹی آف مینی سوٹا، امریکا سے ماسٹرز کی ڈگری اعزاز سے پاس کی۔ بطور چیف انجینئر مشرقی پاکستان، ایران اور سعودی عرب میں پانی اور بجلی کے بڑے تعمیراتی اہداف کی تکمیل کیلئے خدمات انجام دیں۔ ان منصوبوں میں مکہ معظمہ میں حرم کعبہ کی توسیع اور تعمیر نو بھی شامل ہے۔ 1986 ءمیں پاکستان منتقل ہو گئے اور جولائی 1991ءمیں ماہ نامہ ترجمان القرآن کے مدیر مقرر ہوئے۔ 150 چھوٹی بڑی کتب کا فکری، تربیتی، تحریکی اور علمی اثاثہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض تحریریں جرمن، فرانسیسی، ترکی، ہندی، بنگالی اور عربی وغیرہ میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کی کتاب ”لمحات“ ان کی آپ بیتی بھی ہے اور ایک عام انسان کی محنت و عزم کیساتھ ترقی بلندیوں پر پہنچنے کی کامیاب داستان بھی۔
”لمحات“ کے بارے میں ”اعتراف“ کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہےں کہ ”خرم مراد کی تصنیف ’لمحات ‘یادوں کا ایسا قیمتی مرقع ہے جس میں ایک طرف ایسے انسان کی بامقصد شخصی اور تحریکی زندگی کی اہم ترین جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں جس نے عنفوان شباب ہی میں اپنے آپ کو ایک پاکیزہ نصب العین اور ایک تعمیری تحریک کیلئے وقف کر دیا تھا دوسری طرف خود اس دعوے اور تحریک کی داستان کا ایک ہیولا بھی ان سطور اور بین السطور سے اُبھر آتا ہے جس کے عشق میں یہ نوجوان سرگرداں رہا اور جس کی جستجو‘ خدمت‘ آبیاری اور تزئین کیلئے اس نے پوری زندگی نچھاور کر دی۔لمحات کا خاصا بڑا حصہ خرم مراد کی جمعیتی زندگی اور خود اسلامی جمعیت طلبا کے سب سے اہم اور تشکیلی دور کے شب و روز پر مشتمل ہے۔ لمحات میں تحریک اسلامی کے ایک اور وصف کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے یعنی تحریک میں مشورے تنقید اختلاف اور فیصلے کا عمل اور اس کی برکتیں۔ایک طرف آزادی اظہار رائے اور اختلاف کا برملا اظہار اور دوسری طرف فیصلوں کا احترام اور شخصیات کے باہمی تعلقات میں محبت اور اعتماد کی فراوانی۔ یہ اسلام اور تحریک اسلامی ہی کا ایک کرشمہ ہے جس کی جھلکیاں لمحات میں جگہ جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر خرم مراد کی زندگی ساتھ دیتی تو بھارت کی قید‘کچھ عرصہ ایران میں‘سعودی عرب میں حرم شریف کی توسیع کا منصوبہ‘اسلامی فاﺅنڈیشن لسٹر کے دس سال‘لاہور کی امارت‘مرکز میں نائب امارت اور ترجمان القرآن کی ادارت کی چھ سالہ جاں گسل جدوجہد کی یادوں میں بھی وہ ہم کو شریک کر لیتے“۔
خرم مراد تو آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی تصنیف ”لمحات“ کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ سامنے بیٹھے اپنی
داستان بیان کر رہے ہوںا ور ایک ایک لفظ ذہن نشین اور دل میں اترتا جا رہا ہو۔ 551صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت آپ بیتی منشورات نے شائع کی۔ پہلی اشاعت سن دو ہزار جبکہ تازہ ترین اشاعت اکتوبر دو ہزار بائیس میں ہوئی۔ کتاب کو بنیادی طور پر چودہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب کو ذیلی عنوانات کے ساتھ مزید چھوٹے ابواب میں اس طرح لکھا گیا ہے کہ ہر موضوع ایک دوسرے سے مختلف اور جامع دکھائی دیتا ہے اور کتاب کا ربط اور تحریر کا تسلسل بھی برقرار رہتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کے ”اعتراف“ کے بعد مصنف کا ابتدائیہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کی یادداشتوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصہ تو وہ ہے جس میں جماعت اسلامی پاکستان کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کے بارے میں کام کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے کو خرم مراد نے اپنی تحریکی زندگی کے واقعات اور نتائج پر مرکوز کیا ہے۔تیسرا حصہ ذاتی زندگی کے بارے میں ہے۔
خرم مراد نے یہ تمام یادداشتیں اپنی زندگی کے ابتدائی 48سال کے بعد حافظے کی مدد سے لکھیں۔پہلا باب بچپن اور زندگی کے دورِ تشکیل کے عنوان سے ہے جس میں ابتدائی نقش‘جماعت سے تعلق کی ابتدا‘والد صاحب‘ گھر کے کتاب دوست ماحول‘ مطالعے کے شوق پر نظر ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح تحریک پاکستان میں دلچسپی‘دینی تعلیم‘جماعت سے تعلق‘کالج میں داخلے اور بھارت میں نظمِ جماعت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ دوسرا باب پاکستان آمد اور مسائل کے حوالے سے ہے۔ اس میں پاکستان آنے کے فیصلے سے لیکر پاکستان کے سفر اور جذبات‘ لاہور کی فضا‘ گھر کے مسائل اور تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل پر نظر ڈالی گئی ہے۔تیسرا باب جمعیت سے وابستگی اور سفرِشوق کے بارے میں ہے اور اسی وابستگی اور شوق نے بالآخر خرم مراد کو نئی پہچان دی۔ جمعیت میں ہونے والی سرگرمیاں‘کراچی جمعیت کی نظامت‘اپنے مکان کے حصول‘مولانا مودودی کی جلسے میں شرکت‘ اسٹوڈنس وائس کے اجرا‘جمعیت کے دفترکا حصول اور اساتذہ اور ہماری اعانت جیسے دلچسپ پہلوﺅں اور موضوعات کو یادداشتوں کا حصہ بنایا گیا ہے۔اس باب میں خرم مراد کے جمعیت سے نہ صرف گہری وابستگی کے سفر کی تفصیل بیان کی گئی ہے بلکہ بعض یادگار واقعات کو بھی تحریر کیا گیا ہے جیسا کہ ”رعایتی ٹکٹ‘غلطی پر پشیمانی“ جس میں خرم مراد نے بتایا کہ جب وہ کراچی جمعیت کے ناظم تھے تو اجتماع میں شرکت کیلئے لاہور جانا تھا لیکن مالی مسائل آڑے آ گئے۔جانا بھی ضرور تھا لہٰذا رعایتی ٹکٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا بعد میں جس کی انہیں خلش محسوس ہوئی اور انہوں نے اس احساسِ ندامت کا ذکر بڑے مفصل انداز میں کیا جو ایک بڑے اور کھرے آدمی کی نشانی ہے۔چوتھا باب نظامت اعلیٰ اور جمعیت سے فراغت کے عنوان سے ہے۔ اس میں نظامت اعلیٰ کی ذمہ داری سے لیکر جمعیت سے فراغت تک کے عنوان سے مختلف پہلوﺅں اور یادوں کواس خوبصورتی سے یکجا کیا گیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔پانچواں باب عملی زندگی میں قدم کے عنوان سے ہے اور یہ بھی انتہائی اہم باب ہے کیونکہ اس میں پہلی ملازمت سے لیکر جماعت سے تعلق اور سرگرمیوں کا خوب احاطہ کیا گیا ہے۔خرم مراد انجینئرنگ کالج میں لیکچرر بھی رہے ‘ پاک نیوی میں بھی انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔گھر میں معاشی حالت پتلی ہونے کے باعث ٹیوشن بھی پڑھاتے رہے۔اس باب میں شادی کا بھی تذکرہ ہے جس کے انکی ذاتی اور تحریکی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔لکھتے ہیں
” اپنے بچوں کو دیکھ کر میں اللہ کا بار بار شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے میرے علم کی حد تک انہیں صالح بنایا اور دین کیلئے بھی سرگرم رکھا ہے“۔ چھٹا باب امریکہ میں تعلیمی سرگرمیوں اور مشاہدات کے عنوان سے ہے جس میں اعلیٰ تعلیم کی ضرورت سے لےکر مغرب سے جو کچھ سیکھا‘ اس بارے میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ساتواں باب امریکا سے واپسی کے عنوان سے ہے۔ آٹھواں باب ڈھاکہ جماعت میں براہ راست حصہ‘ نواں باب جماعت پر پابندی‘ گرفتاری اور قومی سیاست ‘دسواں باب انتخابات‘ جنگ ‘ گیارہواں تعمیر و تخریب کا مشاہدہ‘ بارہواں مارشل لا کا نفاذ‘زوال کا راستہ‘تیرہواں1970انتخابی امتحان اور پاکستان اور چودھواں او ر آخری باب المیوں کا سال کے عنوان سے ہے جس میں سانحہ مشرقی پاکستان اور دیگر کا ذکر ہے۔ خرم مراد کی یہ کتاب ہر طالب علم کو پڑھنی چاہیے۔ یہ اگر چہ بیان کردہ آپ بیتی ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک عہد کی فکری اور علمی داستان ہے‘ مصنف جس کے گواہ بھی ہیں اور حصہ بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب سیاسی اور اجتماعی تحر یکی زندگی میں ثقافتی اور فکری انقلاب پیدا کرنے کا بھر پور سامان اور واضح پیغام رکھتی ہے۔
.یہ کتب تاریخ اسلام کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں

The post خرم مراد کی تصنیف ”لمحات“ appeared first on Manshurat.

]]>
https://manshurat.pk/2024/10/18/%d8%ae%d8%b1%d9%85-%d9%85%d8%b1%d8%a7%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b5%d9%86%db%8c%d9%81-%d9%84%d9%85%d8%ad%d8%a7%d8%aa/feed/ 0 10828