یہ کتاب ہماری زندگی کے زندہ موضوعات سے بحث کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے سے اسلام کی ابدی تعلیمات کو قسطوں میں خارج کیا جارہا ہے۔ اہلِ علم کا فرض ہے کہ ان کی نشان دہی کریں اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو واضح کرکے پیش کرتے رہیں، اللہ جل شانہٗ کے ہاں ہم بری الذمہ اسی صورت میں ہوسکتے ہیں۔ جب کہ مغربی فلسفوں کا طوفان بدتمیزی سب کچھ بہائے لیے جارہا ہے۔ ڈاکٹر محمد سلیم شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس طرف توجہ کی، اور ادارہ منشورات توصیف و تعریف کا حق دار ہے کہ اس نے یہ گراں قدر کتاب شائع کی۔
ڈاکٹر محمد سلیم تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب پڑھنے سے پہلے ایک بات پیش نظر رہے کہ یہ کتاب، اُن مخلص مسلمانوں کے لیے نہیں لکھی گئی، جن کی گردن اللہ تعالیٰ کے احسانات کے سامنے ہر وقت جھکی رہتی ہے۔ جو حلال روزی پر قناعت کرتے ہیں اور پھر اس پیسے کو اپنی ملکیت کے بجائے اللہ کی امانت سمجھ کر میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں۔ انکساری کی وجہ سے لوگوں کو اپنی امارت یا بڑے عہدے کا پتا نہیں چلنے دیتے اور اِس دنیا کو مسافر خانہ سمجھتے ہوئے ان کے دل آخرت کی تیاری سے غافل نہیں رہتے۔ ہاں ، تبلیغ کی نیت سے اس کتاب کو پڑھنا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
یہ کتاب اُن طالب علموں کے لیے بھی فائدہ مند رہے گی، جن کے ذہن میں اسٹیٹس (Status) یعنی شان و شوکت کے بارے میں منصوبہ سازی ہوتی رہتی ہے۔ ماحول ہی ایسا بن چکا ہے یا بنادیا گیا ہے کہ اسلامی شعائر (Islamic Symbols) کو بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور انتہا پسندی (Extremism)کی علامات سمجھا جانے لگا ہے۔ جبکہ شان و شوکت کے مظاہر کو عزت، وقار اور ترقی کی علامات سمجھا جاتا ہے۔ کامیابی اعمال کے بجائے مال میں سمجھی جاتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو غلامی جبکہ اپنی مرضی کی (Secular) زندگی کو آزادی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اور یہ کتاب اسی حقیقت کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ہے۔
اسلام کی نظر میں صاف ستھرا لباس اور اچھا رہن سہن مسئلہ نہیں، مسئلہ کچھ اور ہے۔ اس سلسلے کی تفصیل آپ کو مقدمے میں پڑھنے کو ملے گی۔ سردست ایک حدیث میں غور کرتے ہیں۔
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مَثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلْ: اَنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوَنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنَۃٌ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ: اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ۔
’’جنت میں نہ جائے گا وہ شخص جس کے دل میں تکبر کا ایک ذرہ بھی ہوگا‘‘۔
ایک شخص بولا: ’’ہر ایک آدمی چاہتا ہے اس کا جوتا اچھا ہو اور کپڑے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبر ہے)؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جمیل ہے، دوست رکھتا ہے جمال کو، تکبر حق کو نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان 265، ترمذی 1999)
اس حدیث میں بطرالحق کے الفاظ ہیں۔ بَطَرَہ کے اصل معنی چیرنے، شگاف دینے یا پھاڑنے کے ہیں۔ بَطَرَہ یعنی زیادتی نعمت کی وجہ سے حیران ہونا، اترانا، بہک جانا۔ بطرالحق یعنی حق کو خاطر میں نہ لانا، قبول نہ کرنا۔ یعنی جیسے نعمت کی فراوانی نے کسی کی آنکھیں پھوڑ دی ہوں اور وہ حق کو خاطر میں نہ لائے۔ (مصباح اللغات)۔
تو مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو اسٹیٹس ملتا ہے یا اسٹیٹس میں ترقی ہوتی ہے تو پھر صاحب کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ اس حقیقت (حق) کو تسلیم نہ کرے اور کہے کہ ’’ یہ مال تو میں نے بڑی محنت سے کمایا ہے‘‘۔ دوسری حقیقت جو ’’صاحب‘‘ کو تسلیم کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ مال و دولت ایک امانت، ایک آزمائش ہے، کوئی انعام نہیں۔ اور حق یہ ہے کہ اس دولت کو میانہ روی سے صرف وہیں خرچ کرنا ہے جہاں شرعی ضروریات ہیں۔ تکبر اس دولت کو اپنی ملکیت سمجھ کر ’’میں جہاں چاہوں، جیسے چاہوں خرچ کروں‘‘ والی سوچ ہے۔ یہ ’’میں اور میری مرضی‘‘ تکبر کی علامات ہیں۔
اسٹیٹس میں آزمائش یہ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے خوش حالی بڑھے، ویسے ہی شکریہ میں انسان کی گردن اور دل اللہ کے سامنے زیادہ جھک جائیں، مزاج میں زیادہ تواضع اور انکساری آئے۔ مگر یہاں تو ’’صاحب‘‘ کا مزاج ہی اونچا (Elite) ہوچکا ہے اور اب دوسروں سے ان کی حیثیت (Worth) کے مطابق برتائو ہوتا ہے۔ یہ بھی تکبر ہے۔ بس یہ کتاب قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک یاددہانی ہے۔ ہاں جو غور و فکر کرے اور شکر کے طور پر اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرلے تو پھر اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے:
(ترجمہ) ’’اور جب تمہارے رب نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ (ابراہیم۔ 7:14 )
یہ کتاب کسی بھی فرد، ذات یا قبیلے کو ٹارگٹ بناکر نہیں لکھی گئی، اور نہ ہی کسی کی توہین مقصود ہے۔ بلکہ اصل نیت خیر خواہی ہے۔ چودھری، سیٹھ جیسے الفاظ محض سمجھانے کے لیے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کتاب کو لکھنے والا پڑھنے والے سے زیادہ گناہ گار ہو۔ یہ کتاب ایک آئینہ ہے، مؤلّف کے لیے بھی اور قارئین کے لیے بھی۔ ہم سب ہدایت کے محتاج ہیں اور سبھی اللہ کے سامنے فقیر ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شرح صدر سے نواز دے اور ہدایت والے راستے پر چلا دے (آمین)۔
اس کتاب کے دو حصے ہیں:
٭ پہلا حصہ ’’مقدمہ‘‘ قدرے طویل ہے۔ یہ اسٹیٹس کی نقاب کشائی ہے۔
٭ دوسرا حصہ دنیا کے دھوکے اور آخرت (دارالقرار) کی حقیقت کے متعلق ہے۔
اس کتاب میں ’’دنیا دار‘‘ کے الفاظ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو زندگی گزارنے کے لیے قرآن حکیم کی رہنمائی کے بجائے اپنی عقل اور خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے بجائے زمانے کے چلن (رسم و رواج) کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔
اور اس کتاب میں ’’دین دار‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عقل اور خواہشات کو فقیرانہ عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کیا ہوا ہے اور جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا ہادی و رہنما تسلیم کیا ہے۔‘‘
اس قسم کی کتابیں، خاص کر زیر نظر کتاب’’شان و شوکت کی ہوس‘‘ ہر گھر کی ضرورت ہے کہ وہ موجود ہو اور پڑھی جائے۔
کتاب خوبصورت طبع ہوئی ہے۔ دینی، تبلیغی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔
