کشمیر : 5 اگست 2019 کے بعد
اردو میں لکھنے والے بزدل میں یا بد دیانت؟ احباب میں اور زبان خشک کیوں ہو جاتی ہے۔۔ ناراض نہ ہوں ، میں وضاحت کر دوں کہ ایک تو یہ سوال میرا ممبئی اردو نیوز کے مدیر مزید لکھتے ہیں ” نہ جانے ہم اردو نہیں، یہ مبئی اردو نیوز کے مدیر شکیل رشید کا ہے۔ دوسرا اس کے لکھنے والوں میں ایسے لوگ کیوں نہیں ہیں جو جھوٹ کو جھوٹ اور مخاطب پاکستانی اہل قلم نہیں بلکہ بھارتی دانشور ہیں۔ شکیل رشید سچ کو سچ کہہ سکیں ۔ اگر مسئلہ کشمیر پر ہماری زبا نہیں کھلتی بھی ہیں تو نے یہ سوال کشمیر میں ہونے والے بھارتی اقدامات کے تناظر بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں ۔ اردو کے قلم کارو! آپ کا قلم میں اٹھایا ہے کہ اس ظلم پر اردو لکھنے والے گونگے کیوں ہو گئے؟ کب بولے گا ؟ آپ کی زبان کب کھلے گی ؟ آپ کب افسانوں وہ بزدل ہیں یا بد دیانت ۔ اور غزلوں اور نظموں کی دنیا سے باہر نکل کر حالات حاضرہ پر بھی سوال میں البتہ معنویت اتنی ہے کہ آپ اسے میرا سوال بھی سمجھ کچھ لکھیں گے اور بولیں گے۔ سکتے ہیں اور آپ اس سوال کا مخاطب پاکستانی اہل قلم کوبھی قراردے پیر اقتباسات میں نے کشمیر: پانچ اگست 2019 کے بعد” سکتے ہیں۔ تو صاحب سوال یہ ہے کہ کشمیر پر خاموش رہنے والے اردو سے نقل کیسے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر کی مبادیات اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ادیب کیا بزدل اور بددیانت ہیں؟ کے حوالے سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے جسے شیبانی اشفاق احمد صاحب کے ایک افسانے میں مرکزی کردار ایک فاؤنڈیشن کے مراد علی صاحب اور منشورات کے سلیم منصور خالد مظلوم کشمیری لڑکی کا ہے۔ اس کا نام شازیہ ہے۔ وہ اردو کے نامور صاحب نے شائع کیا ہے۔ اس میں پاکستان بھارت ، آزاد کشمیر ادیوں کے پاس جاتی ہے اور انہیں کہتی ہے کہ آپ کشمیر میں ہونے اور مقبوضہ کشمیر کے اہل دانش کی تحریریں شامل ہیں ۔ سید علی گیلانی والے مظالم پر کچھ لکھتے کیوں نہیں۔ صاحب کے مضامین بھی اس کتاب کا حصہ ہیں ۔ میں نے صرف اس لڑکی کو آگے سے جواب ملتا ہے کہ ہمارا مذہب تو انسانیت اردو اہل قلم والا پہلو آپ کے سامنے رکھ دیا ورنہ مسئلہ کشمیر کے ہر ہے ، ہم تو صرف انسان دوستی پر لکھتے ہیں ، ہم سیاست پر نہیں لکھا پہلو پر اس کتاب میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ میرے بس میں ہو تو میں تمام پارلیمنٹیرینز کو یہ کرتے ۔ چنانچہ یہ لڑکی ایسے ہی انکل سے جن کا مذہب انسانیت ہوتا ہے یہ سوال پوچھتی ہے کہ انکل کہیں آپ کو
اس بات کا خوف تو نہیں کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانوں کے حق میں کچھ لکھا تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے آپ کو تنگ نظر، کوتاہ بین ، قدامت پسند اور بنیاد پرست کہہ کتاب بھجوا دوں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا مطالعہ انہیں کشمیر کے معاملے میں ترکش کما حق نیم عطا کرسکتا ہے۔
آصف محمود اقتباس پڑھ لیجیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آخر میں شیخ عبد اللہ کی ایک تحریر کاجب قائد اعظم سری نگر تشریف لائے تووہ میری باتوں سے خوش نہیں تھے مگر کر روشن خیال دائروں میں آپ کا داخلہ بند کر دیں گے؟ انہوں نے کمال صبر سے مجھے سنا اور ایک مرد بزرگ کی طرح انکل جی نے تو اس سوال کا کیا جواب دینا تھا ، جناب پروفیسر فہمائش کے انداز میں کہنے لگے : فتح محمد ملک اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ پاکستان کے اردو ” میں نے اپنے بال سفید کیے ہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ ہند و قیادت ادیب واقعتا اس خوف میں مبتلا ہیں اور ان کا یہ عارضہ اتنا ہی پرانا پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی آپ کے دوست نہیں بن سکتے۔ میں ہے جتنا کشمیر کا تنازعہ کشمیریوں کے مصائب سے ان کی غفلت نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی لیکن مجھے ان کا اعتماد حاصل اور فرار ایک پرانا عارضہ ہے۔ اردو ادیب یہ سمجھتا ہے کہ بنیادی کرنے میں کامیابی نہیں ہوسکی ۔ وقت آئے گا جب آپ کو میری بات حقوق سے محروم کشمیری چونکہ مسلمان واقع ہوئے ہیں، اس لیے یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گئے۔ ان سے یگانگت کا دم بھرتے ہوئے ، اس کی ترقی پسندی اور آزاد اتفاق دیکھیے کہ انہی شیخ عبد اللہ کے صاحبزادے ڈاکٹر خیالی پر حرف آ جائے گا۔ فاروق عبد اللہ بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ : ” ہم نے فتح محمد ملک لکھتے ہیں کہ اوپر سے میڈیا میں کشمیر کی تحریک کانگریس پر اعتبار کر کے غلطی کی۔ مزاحمت کی جو تصویر میں ابھرتی ہیں، اسے حریت پسندوں کی شیخ عبداللہ لکھے ہیں کہ قائد اعظم بمبئی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ کھانا داڑھیوں نے ” خراب کر رکھا ہے۔ اب ترقی پسند اور روشن کھا رہے تھے کہ ایک ملاقاتی کا کارڈ اندر آیا۔ یہ پنڈت مدن موہن خیال اہل قلم داڑھی والوں کے حق میں کیسے لکھیں۔ پروفیسر مالویہ کا تھا۔ قائد اعظم کھانے کی میز سے اٹھ کر گئے اور انہیں اندر صاحب دعوت فکر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذرا سوچیں کہ داڑھی تو لائے ۔ جب وہ میز پر بیٹھ گئے تو انہیں کھانے میں شرکت کی دعوت ان کے ہیرو جی گویرا کی بھی تھی مگر اسے وہ اسلامی نہیں دی۔ مالوی جی نے انکار کر دیا کہ میں مذہبی وجوہات کی بنیاد پر آپ انقلابی داڑھی سمجھتے ہیں۔ کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا۔ قائد اعظم نے کہا آپ ساتھ والی میز پرشاید یہی وجہ ہے کہ شروعات میں ہی جب ایم ڈی تاثیر بیٹھ کر کھا لیں۔ مالوی جی نے کہا یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ نیچے قالین تو صاحب نے ترقی پسندادیوں سے کشمیر کے حق میں بیان پر دستخط ایک ہے اور اس کے ذریعے چھوت آسکتی ہے۔ چنانچہ آداب میز بانی لینے چاہے تو فیض صاحب کے علاوہ تمام ترقی پسند ادیوں نے کو نبھاتے ہوئے قائد اعظم نے قالین ہٹوا دیا اور الگ میز پر انہیں انکار کر دیا۔ ترقی کا کوئی مادی وجود ہوتا تو سر پیٹ لیتی اور منہ نوچ میوے اور دودھ پیش کیا گیا۔ شیخ عبداللہ لکھتے ہیں کہ اس واقعے کا ذکر نیتی ۔ کیا قلندرانہ دعوی ہے، ترقی پسند ۔ اور وہ بھی بقلم خود۔ ہوا تو قائد اعظم نے مجھ سے پوچھا ” جس قوم کے برگزیدہ لیڈروں کا چنانچہ مبئی اردو نیوز کے مدیر شکیل رشید سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ حال ہو وہ آپ کو کیسے جینے دیں گئے ۔ اردو کے ادبیوں اور دانشوروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں کہ کشمیر پر اکثر لگی بندھی روایتی باتیں لکھی جاتی ہیں لیکن یہ کتاب بھارت میں زعفرانی لہر کے بعد کیا صورت حال ہے، کشمیر میں ایک ایسی دستاویز ہے جس کا ہر باب آپ کو ایک نئے زاویے سے پیلٹ گنوں سے کتنے لوگ نا بینا ہو گئے اور جب بات حق کہنے کی سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ میں اس قیمتی دستاویز کی اشاعت پر برادرم آتی ہے تو اردو کے دانشوروں کی زبانوں پر تالے کیوں پڑ جاتے مراد علی اور جناب سلیم منصور خالد کا شکر گزار ہوں۔
