گوانتانامو میں پانچ سال، مراد کرناز، اُردو ترجمہ: ریاض محمود انجم۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔
مُراد کرناز، کی یہ روداد صرف ترک نژاد جرمن نوجوان کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ گوانتانامو جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے ہزاروں افراد کی رودادِ زندگی بھی ہے۔ تہذیب و تمدن کی دعوے دار عالمی طاقتوں نے افغانستان سے سیکڑوں افراد کو صرف شبہے میں گرفتار کیا اور مجرموں تک پہنچنے کی کوشش میں معصوم شہریوں پر جس قسم کے مظالم توڑے گئے اُس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قلم کانپ اُٹھتا ہے۔ مُراد کرناز کو ۳ ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا تھا۔ اُس نے ۱۶۰۰ دن اس طرح کاٹے کہ اُسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، قیدتنہائی میں رکھا گیا، سونے نہ دیا گیا، انتہائی گرم اور انتہائی ٹھنڈے کمروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا، لیکن اُس کا عزم و ارادہ کمزور نہ ہوا۔ وہ کس جرم کوقبول کرنے کا اعلان کرتا، جب کہ اُس نے کوئی جرم کیا ہی نہیں تھا! گوانتانامو جیل میں قیدیوں پر اس قدر ظلم و تشدد کیا گیا کہ ان میں سے درجنوں قیدی ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ اپنے آپ کو موت کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاتے۔
ریڈکراس کی کوششوں سے پانچ برس بعد مُراد کرناز، اپنے گھر والوں کے درمیان لوٹ آیا۔ مُراد کرناز سے تفتیش کس طرح کی جاتی تھی، اُس کا ایک انداز یہ تھا: ’’اُنھوں نے برقی سلاخ میرے پیروں کے تلووں کے نیچے رکھ دی، بیٹھے رہنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میرا بدن خود بخود اُچھل رہا ہو۔ میں نے برقی رَو اپنے پورے بدن میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کی۔ میں سخت اذیت اور تکلیف میں مبتلا تھا۔ مجھے اپنے بدن میں گرمایش، جھٹکے اور اینٹھن محسوس ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ میں اس اذیت میں مر جائوں گا‘‘…. ایک اور قیدخانے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ ایک ایسا قیدخانہ تھا جہاں کسی قسم کی خلوت کا تصور نہ تھا۔ہماری گفتگو پر بھی پابندی تھی اور پھر ایک مضحکہ خیز قانون یہ تھا کہ پہرے داروں سے گفتگو تو درکنار، ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ مزید ستم یہ کہ ہم ریت میں اپنی اُنگلیوں سے کوئی خیالی تصور یا تحریر بھی نقش نہیں کرسکتے تھے بلکہ مسکرانا بھی قوانین کی خلاف ورزی میں شامل تھا‘‘۔ مترجم ریاض محمود انجم کے ترجمے میں طبع زاد تحریر جیسی روانی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
