شہید عبدالقادر مُلّاؒ – ایک تاریخ ساز باب عبدالقادر مُلّاؒ کی شہادت عالمِ اسلام کے لیے ایک شدید صدمہ ہے۔ تاہم، اصل دکھ یہ ہے کہ عالمِ اسلام کی اکثریت اس ظلم پر خاموش رہی۔ چند ممالک نے آواز اٹھائی، مگر مجموعی طور پر بے حسی نمایاں رہی۔
زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی وہ ریاست، جس کے نظریاتی تحفظ کے لیے عبدالقادر مُلّاؒ اور ان کے ساتھیوں نے جانیں قربان کیں، وہی ریاست خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس کی قیادت نے مصلحتوں اور نامعلوم مجبوریوں کی بنیاد پر لب سِل لیے۔
ادھر، اخبارات، رسائل اور صحافیوں نے اس سانحے پر بھرپور ردِعمل دیا۔ تقریباً ہر معروف کالم نگار نے اس پر اظہارِ افسوس کیا۔ لیکن دوسری طرف، بعض سیاسی راہ نما بے حسی اور غیرذمہ دارانہ بیانات سے اس المیے کو مزید تلخ بنا گئے۔ خاص طور پر ایک عوامی جماعت کے رہنما کا یہ کہنا کہ “جو بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ یہاں بھی ہونا چاہیے” انتہائی افسوسناک تھا۔
عبدالقادر مُلّاؒ نے اپنی ثابت قدمی اور قربانی سے شہادت کا وہ بلند مقام پایا جو صرف منتخب لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ان کی قربانی صرف ایک فرد کی نہیں تھی، بلکہ ایک نظریہ، ایک فکر، اور ایک تحریک کی نمائندگی تھی۔ وہ عزیمت، اخلاص، اور استقلال کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے۔
اسی پس منظر میں، یہ کتاب نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ اسے سلیم منصور خالد اور طارق محمود زبیری نے مرتب کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے مختلف اہلِ قلم کی تحریروں کو یکجا کیا ہے۔ یوں، یہ مجموعہ شہید عبدالقادر مُلّاؒ کی زندگی، جدوجہد اور شہادت کو مؤثر انداز میں محفوظ کر دیتا ہے۔
علاوہ ازیں، کتاب کا مقدمہ پروفیسر خورشید احمد نے تحریر کیا ہے۔ یہ مقدمہ فکری گہرائی لیے ہوئے ہے۔ مزید یہ کہ اشاریے کی شمولیت نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ محض خراجِ عقیدت نہیں بلکہ ایک تاریخی حوالہ بھی ہے۔ یہ کتاب مستقبل کے مؤرخین کو اسلامی تحریک اور استقامت کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔
آخر میں، منشورات اسلامی کتاب گھر کا ذکر لازم ہے، جنہوں نے اس کتاب کو خوبصورت انداز میں شائع کیا۔ اعلیٰ طباعت، سلیقہ مندی اور پیشکش نے اسے مزید مؤثر بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ کے اندر اس کا چوتھا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔
