اقامت دین-شاہ نواز فاروقی

شاہ نواز فاروقی
ایڈیٹر ، روزمامہ “جسارت”کراچی

مسلمانوں میں غلامی کی گہری فکر نے کروڑوں غلام پیدا کیے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں اسلام کے حقیقی تشخص کو بیان کرنے اور اس پر اصرار کرنے والا کوئی نہ رہا۔ علماء تک اقامت دین کے تصور کو بھول گئے اور اسلام کو صرف ’تبلیغ‘ تک محدود کردیا۔ بلاشبہ تبلیغ بھی ایک عظیم تصور ہے اور تبلیغ سے بھی اسلام کی بڑی خدمت ہوئی ہے ۔مگر جو بات اقامت دین کے تصور میں ہے وہ تبلیغ کے تصور میں نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے 20 صدی میں اقامت دین کے تصور کو زندہ کرنے کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودی کو پروان چڑھایا۔ چنانچہ انھوں نے فرمایا کہ اسلام عیسائیت، بدھ ازم اور ہندو ازم کی طرح صرف ایک مذہب نہیں ہے بلکہ وہ ایک ’ضابطہ ٔ حیات‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام صرف عقیدہ، عبادات کا نظام، اخلاقی اصول بیان کرنے والا مذہب نہیں بلکہ ریاست ہو یا سیاست، معیشت ہو یا معاشرت، آرٹ ہو یا کلچر، ادب ہو یا علوم و فنون، جنگ ہو یا امن وہ پوری زندگی کے لیے رہنما اصول فراہم کرنے والا دین ہے۔ چنانچہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی زندگی سب کچھ اسلام کے تابع ہوگا۔ اس تصور کے تحت انہوں نے عظیم الشان لٹریچر تخلیق کیا۔ اقامت دین کو آسان زبان میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ زندگی کے ہر دائرے میں دین کا عملی نفاذ تاکہ دین محض علم نہ رہے ایک جیتا جاگتا تجربہ بن جائے۔ اقامت دین کا یہ تصور عہد ِ رسالت اور عہد ِ خلافت راشدہ کو نئے دور میں دہرانے کی ایک تمنا تھی اور ہے۔ مغرب ہمیشہ مسلمانوں کی اس تمنا سے خوف زدہ رہا ہے کہ مسلمان عہد ِ حاضر میں عہد ِ رسالت اور عہد ِ خلافت راشدہ کے تجربے کو دہرانا چاہتے ہیں۔ مولانا نے جب اقامت دین کا تصور پیش کیا تو نہ صرف مغرب کے کان کھڑے ہوگئے ۔اقامت دین کا تصور قدیم تھا مگر مولانا نے اسے جدید بنا کر پیش کیا تھا۔

افسوس کہ آج جماعت اسلامی کے وابستگان کی ایک بڑی تعداد بھی اقامت دین کے تصور کی معنویت سے پوری طرح آشنا نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں مطالعے کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے۔ اس صورت حال میں کتاب کے مرتب نے اقامت دین، روایت، عمل، راہ نمائی کے عنوان سے یہ کتاب مرتب کر کے کمال کیا ہے۔ سید مودودی نے مختلف تصانیف میں اقامت دین کے موضوع پر جو کچھ کہا ہے ،اسے زیر بحث کتاب میں مربوط مضمون کی صورت میں مرتب کیا ہے۔ اقامت دین کے حوالے سے قاری کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے وہ جوابات ایک جگہ جمع کردیے ہیں جو مولانا مودودی نے اپنی مختلف کتب میں تحریر فرمائے ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے قاری کو مولانا کی مختلف تصانیف خود کھنگالنے سے بچالیا ہے۔
اس کتاب میں مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا افتخار احمد بلخی، حکیم حیدر زماں صدیقی، مولانا عبدالعلیم اصلاحی، خرم جاہ مراد، صوفی عبدالحمید سواتی، مولانا اسحق مدنی، میاں طفیل محمد، مولانا صدر الدین اصلاحی، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، پروفیسر سید محمد سلیم، ڈاکٹر اسرار احمد، پروفیسر خورشید احمد، سید منور حسن، مفتی سیاح الدین کاکا خیل، محمد نواز ایم اے اور شبیع الزماں صاحب کے مضامین بھی شامل ہیں۔

مولانا مودودی ’امت گیر‘ عالم ہیں ۔ اُن کی شخصیت اور جماعت اسلامی کا نمونہ دو فضیلتوں پر کھڑا ہوا ہے۔ ایک تقوے کی فضیلت اور دوسرے علم کی فضیلت۔ ۔چنانچہ اگر جماعت اسلامی کے لوگ پڑھنے والے نہیں بنیں گے تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔ یاد رکھنا چاہیے ،علمی فضیلت کے بغیر نہ ہم اپنی دنیا تخلیق کرسکتے ہیں نہ پوری دنیا کی قیادت کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ جو مطالعے کا عادی نہیں وہ مولانا مودودی کا وارث نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *