ایک نیامجسمہ
’’زندگی کی حقیقت تو صرف چند سطور میں بیان ہو سکتی ہے پھر اتنی ڈھیر ساری کتابیں کیوں۔۔۔؟‘‘
بہت سال پہلے یہ سوال پائولوکوئیلو نے اٹھایا اور خود ہی اس کا جواب بھی دے ڈالا’’۔۔۔تاکہ ہم ان سطور کو سمجھنے کے قابل ہوسکیں!‘‘
اختر حسین عزمی کا یہ ناول بھی اسی ذیل میں آتا ہے ۔ وادیٔ نیل اور اس کے مسافر کی یہ داستان جہاں بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہے، وہاں ایک دنیا ہے جو اس کی محبت دل میں لیے گھومتی ہے۔ یہ ناول اس محبت کا بیاں ہے۔؎
جو بھی ہے محبت کا پھیلائو ہے
اختر عزمی مضامین اور کہانیاں لکھتے لکھتے ناول کی وادی میں کیسے آنکلے؟ یقیناً اس کی بھی کوئی داستان ہوگی مگر اتفاق یہ ہے کہ مجھے ان سے ایسی کوئی توقع نہ تھی یا یوں یوں کہیے کہ کوئی خطرہ یا خدشہ بھی نہیں تھا۔ ایک معصوم ، سادہ اور کالج کے بچوں کو پڑھانے میں دل و جان سے مستغرق آدمی سے ایسی توقع رکھی بھی کیسے جاسکتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان کے مضامین اورکہانیوں سے خیالات کے خوبصورت چشمے ہی نہیں، دانائی بھی پھوٹتی ہے۔ اس ناول میں وہ ہمیں دانائی کے ایک ایسے ہی سرچشمے تک لے گئے ہیں۔جس سے عام اردو خواں طبقہ ناآشنا ہے۔
لکھنے والے کے لفظ خالی معلومات کے اظہار اور کسی پسندیدہ کردار کے اطوار کے اقرا ر میں ہی وقف ہوں تو اس سے زیادہ خشک تحریر کوئی اور نہیں ہوتی۔ یقیناً اختر عزمی اس حقیقت کو جانتے ہوں گے تبھی تو انہوں نے اپنے ممدو ح کے بارے میں ایسا سحر انگیز نقشہ کھینچا ہےکہ تاریخ اور حقیقت کے شیرے میں گندھا ہوا بھی ہے اور تاثر کی موزوں اور متناسب مقدار سے آراستہ بھی۔
’’نیل کا مسافر‘‘ بنیادی طور پر جس صاحب بصیرت کردا ر کی کہانی ہے، اس پر ایک دنیا دیوانہ وار فدا ہے۔ اس کی ایک نگاہ سے دل و نظر کی دنیا بدلتی تھی۔ اخوان المسلمون کے پودے کو اپنی سوچ، فکر اور جوانی و شہادت سے سیراب کرنے والے امام حسن البنا پر اردو میں چھوٹی چھوٹی کتابیں اور پمفلٹ تو مل جاتے ہیں مگر ایسی کوشش عزمیکے ماتھے کا جھومر بنی ہے۔
اس ناول کی بنیادی خوبی اس کا فطری بہائو ہے جو قاری کو اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اپنے موضوع اور انداز تحریر کے اعتبار سے تحریکی ادب میں اس ناول کا ایک خاص مقام ابھی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ عزمی نے امام کی شخصیت کے وہ سارے گوشے اور پرتیں دھیرے دھیرے ۔۔۔ کسی تردّد اوربوجھ کے بغیر ۔۔۔ بڑی نفاست اور پیار سے قاری کے سامنے یوں کھولی ہیں کہ ان کی خوشبو آتی محسوس ہوتی ہے۔
ہر لکھنے والے کو ، وہ مانے یا نہ مانے، گھر بنانے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ سنگ و خشت کے نہیں، محبت اور پیار کےگداز سے آراستہ، لفظوں اور جملوں سے سجے، مفہوم و معانی کی دیواروں اور سوچ و فہم کے دریچوں سے مکمل ہونے والا گھر۔۔۔ ایسا ہی ایک گھرعزمی نے اپنے لیے تیار کیا ہے۔ یہ دوسرا اتفاق ہے کہ اس میں رہنے کا موقع اس قاری کو ملے گا جو اس تحریر کو دل کی آنکھوں سے پڑھے گا اور اس کی روح سے متعارف ہوگا۔ نئ کہانی اور نیا کردار شروع میں اجنبی اور نیا نیا لگتا ہے مگر جس لمحے وہ اپنی انگلی آگے کردے اور قاری کے ساتھ چل دے، پھر اس کے سحر سے نکلنے کی صورت کم ہی بچتی ہے۔
اختر عزمی نے ’’نیل کا مسافر‘‘ میں ہمیں ایک ایسے مہربان ، شفیق اور درد دل رکھنے والے ہیرو سے ملوایاہے جس کا سایہ بھی ایسا گھنا اور خوشبودار ہے کہ نصف صدی کے بعد بھی وہاں بیٹھنے اور اسے پیار کرنے والوں میں کمی نہیں آئی . مائیکل اینجلو نے کہا تھا: میں تو مجسمہ نہیں بناتا مجسمہ تو پہلے ہی پتھر میں موجود ہوتا ہے۔ میرا کام تو محض اتنا ہے کہ زاید پتھر تراش کر علیحدہ کر دوں۔ مجسمہ کے نقوش خود بخود ابھر کر سامنے آجائیں گے۔ عزمی نے اس ناول میں کسی حد تک یہی کام کیا ہے ۔ حالانکہ اسے یہ بات ماننے میں تھوڑی جھجک ہوگی کیونکہ بنیادی طور پر اس کا تعلق مجسمہ سازوں سے نہیں مجسمے توڑنے والوں سے ہے
.یہ کتب تاریخ اسلام کے پلیٹ فارم سے شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی اس کا مطالعہ کریں
